کیا نبی ﷺ نے امیر معاویہ کے لیے بد دعا کی؟

کیا نبی ﷺ نے امیر معاویہ کے لیے بد دعا کی ؟

وضاحت شبہ:
حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سیدنا معاویہ کو بلایا  وہ نہ آئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس (امیر معاویہ ) کا پیٹ نہ بھرے۔ ‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے امیر معاویہ کے لیے بد دعا کے کلمات  ارشاد فرمائے تھے۔
جوابِ شبہ

 

سب سے پہلے مذکورہ حدیث کو ملاحظہ فرمائیں:

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ أَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَوَارَيْتُ خَلْفَ بَابٍ قَالَ فَجَاءَ فَحَطَأَنِي حَطْأَةً وَقَالَ اذْهَبْ وَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ قَالَ ثُمَّ قَالَ لِيَ اذْهَبْ فَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ فَقَالَ لَا أَشْبَعَ اللَّهُ بَطْنَهُ    ( صحیح مسلم:2604 )

ترجمہ: سیدنا عبداللہ  ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے، میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا، کہا: آپ آئے اور میرے دونوں شانوں کے درمیان اپنے کھلے ہاتھ سے ہلکی سی ضرب لگائی (مقصود پیار کا اظہار تھا) اور فرمایا: "جاؤ، میرے لیے معاویہ کو بلا لاؤ۔” میں نے آپ سے آ کر کہا: وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپ نے دوبارہ مجھ سے فرمایا: "جاؤ، معاویہ کو بلا لاؤ۔” میں نے پھر آ کر کہا: وہ کھانا کھا رہے ہیں، تو آپ نے فرمایا: "اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے۔

پہلی بات:
حدیث میں وارد الفاظ بد دعا نہیں بلکہ اہل عرب کے کلام میں اس قسم کے کلمات بطور محاورہ بول دیے جاتے ہیں ،   جيسا كہ عربى لغت كے علماء نے اس كى وضاحت كى.  ديكھیں: الشفاء للقاضى عياض (2/197)،   شرح النووى (16/152).

اس کی ایک اور دلیل یہ  بھی ہے کہ نبی علیہ السلام نے یہ کلمات سیدنا معاویہ کی کسی غلطی پر انہیں نہیں کہے، مزید وضاحت آگے آرہی ہے۔

دوسری بات:
اہل علم نے قرآن و سنت کو سمجھنے کے لیے یہ اصول بنایا ہے کہ  كسى مسئلہ كو صحيح انداز سے سمجهنے كے ليے اس بارے ميں تمام آيات واحاديث كو جمع كيا جائے گالہذا جب ہم نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :

جس کو میں برا کہوں یا اس پر لعنت کروں یا اس کو بددعا دوں اور وہ مستحق نہ ہو تو اے الله! میرے اس فعل کو اس کے لیے باعث پاکیزگی و ثواب اور رحمت بنا دے۔ ( صحیح مسلم:2603 )

اس حدیث کی رو سے یہ الفاظ سیدنا معاویہ کے حق میں دعا بن جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اہل علم اسی روایت کو سیدنا معاویہ کے مناقب میں لائے۔  جیسا کہ امام مسلم رحمہ اللہ اس حدیث کے فورا بعد سیدنا معاویہ  سے متعلقہ حديث كو لائے ۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی اس دعا نے سیدنا معاویہ کو دنیا میں فائدہ دیا اور آخرت میں بھی دے گی۔ (البدایۃ والنھایۃ :8/128 )

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لعلّ هذه منقبة لـمعاوية    ( تذکرۃ الحفاظ :2/195 )

ترجمہ: امید ہے کہ یہ  سیدنا معاویہ کی منقبت ہو۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وأما دعاؤه على معاوية أن لا يشبع حين تأخر ففيه الجوابان السابقان أحدهما: أنه جرى على اللسان بلا قصد، والثاني: أنه عقوبة له لتأخره وقد فهم مسلم رحمه الله من هذا الحديث أن معاوية لم يكن مستحقا للدعاء عليه فلهذا أدخله في هذا الباب، وجعله غيره من مناقب معاوية لأنه في الحقيقة يصير دعاء له    (شرح النووی: تحت الحدیث:2603 )

ترجمہ: جہاں تک  نبی کریم ﷺ کی معاویہ کے بارے میں بددعا کا تعلق ہے کہ جب انہوں نے تاخیر کی تو کہا کہ ان کا پیٹ نہ بھرے، تو اس میں پچھلے دو جوابات ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ بغیر نیت کے زبان پر تھی اور دوسرا یہ کہ یہ عقوبت ہے ان کے دیر سے آنے کی وجہ سے اور امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہی سمجھا کہ معاویہ اس بددعا کے مستحق نہ تھے اس لیے اس باب میں لائے اور اسے مناقب معاویہ میں ذکر کیا اس لیے کہ یہ حقیقت میں یہ ان کے لیے دعا بن جاتی ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وقد يستغل بعض الفرق هذا الحديث ليتخذوا منه مطعنا في معاوية رضي الله عنه ، وليس فيه ما يساعدهم على ذلك ، كيف وفيه أنه كان كاتب النبي صلى الله عليه وسلم ؟! ولذلك قال الحافظ ابن عساكر” إنه أصح ما ورد في فضل معاوية ” فالظاهر أن هذا الدعاء منه صلى الله عليه وسلم غير مقصود، بل هو ما جرت به عادة العرب في وصل كلامها بلا نية   ( سلسلة الصحیحة:حديث 82 )

ترجمہ: بعض فرقے اس کو دليل بناتے ہوئے  سیدنا  معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض کرتے ہیں جبکہ اس میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے،  اور ہو بھی کیسے سکتی ہے جبکہ وہ نبی کریم ﷺ کے کاتب تھے؟ اسی وجہ سے حافظ ابن عساکر نے کہا: ”معاویہ کی فضیلت کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس میں یہ سب سے زیادہ صحیح ہے”،پس یہ ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کی طرف سے یہ دعا مقصود نہیں تھی، بلکہ عام طور پر عرب میں یہ عادت جاری ہے کہ اس قسم کی بات وہ بغیر ارادے کے کرتے ہیں۔

تیسری بات:
بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ  اس بد دعا کی وجہ یہ تھی کہ  سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے آنے سے منع کیا تھا جبکہ یہ حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ حدیث میں سیدنا معاویہ کے انکار کا ذکر نہیں ہے ،صرف اس حد تک ذکر ہے کہ سیدنا ابن عباس نے جاکر یہ بتلایا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں، جس سےیہ امکان بھی  ہے کہ  سیدنا ابن عباس نے سیدنا معاویہ کو کھانا کھاتا دیکھ کر نبی کریم ﷺ کے پیغام کی اطلاع نہ دی  ہو ۔

آخرى بات:

اس  حديث کے حوالےسے اہل علم نے متعدد جواب دیے ہیں: بطور مثال علامہ ابن حجر الہیثمی رحمہ اللہ  کے بیان کردہ پانچ جوابات پیش خدمت ہیں  ، و ہ اس حدیث کے بارے  لکھتے ہیں:’’  اس حدیث سے سیدنا معاویہ پر   کوئی نقص  وارد نہیں ہوتا کیونکہ:

1۔ اس حدیث میں سیدنا عبداللہ بن  عباس رضی الله عنہما  کے بارے میں یہ ذکر نہیں کہ انہوں نے سیدنا  امیر معاویہ رضی الله عنہ  تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچا دیا ہوکہ آپ کو نبی اکرم ﷺ بلا رہے ہیں اور انہوں نے آنے میں دیر کر دی ہو ۔ بلکہ احتمال تو یہ ہے کہ سیدنا  ابن عباس رضی الله عنہما نے ان کو کھانا تناول کرتے دیکھ کر  نبی ﷺ کا پیغام نہ دے سکے اورشرم محسوس کرتے ہوئے واپس چلے گئے اور نبی اکرم ﷺ کو جا کر عرض کر دیا کہ وہ کھانا تناول فرما رہے ہیں اور اسی طرح دوسری مرتبہ بھی ہوا، لہذا اس صورت میں اس بددعا  کا باعث سیدنا معاویہ کا زیادہ دیر تک کھانا ہوگا ، مزيد اس بددعا میں کوئی دینی نقصان تو ہے ہی نہیں کیونکہ یہ بددعا صرف کثرت کھانے کی ہے ، اور اس سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ان کو مشقت و تعب ہوگا نہ کہ آخرت میں، اور جو چیز اخروی طور پر نقصان کا باعث نہ ہو وہ کمال کے منافی نہیں ہوسکتی۔

2۔ دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : (بالفرض اگر  سیدنا عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما نے نبی اکرم ﷺ  نے امیر معاویہ کو نبی ﷺ کا پیغام پہنچا دیا تو ہوسکتا ہے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ نے یہ سمجھا ہو کہ نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کی  تعمیل میں گنجائش ہو اور فوراً اس کی تعمیل مقصود نہیں بلکہ کھانا مکمل کرنے کی گنجائش ہو۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ  اگر نبی کریم  ﷺ کسی چیز کا حکم دیں تو فوراً ہی کرنا ہوتا خواہ نماز ہی کیوں نہ ہو!! تو اس کا جواب یہ ہے کہ سیدنا امیر معاویہ اس سے واقف نہ ہوں گے۔ اس صورت میں بھی ان کا عذر واضح ہے)۔

3۔ تیسری وجہ بیان کرتے ہوئےرقمطراز ہیں :    (یہ کلمات  کہتے وقت بد دعا کا ارادہ و نیت نہ ہو جس طرح آپ ﷺ نے اپنے بعض صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کو فرمایا : "تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہو جائیں "۔ یا بعض امہات المؤمنین رضی الله عنہن کو فرمایا: "پاؤں کٹی ہوئی سر منڈی ہوئی”  اور اس طرح کے الفاظ اہل عرب کی زبان سے بطور عادت نکل جاتے تھے ، ان کا مقصد اس کا ظاہرى  معنی نہیں ہوتا )۔

4۔ چوتھی  وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ( امام مسلم  نے خود اپنی صحیح میں اس بات کو بیان کر دیا ہے کہ سیدنا  امیر معاویہ رضی الله عنہ اس بددعا کے مستحق نہ تھے کیونکہ وہ اس حدیث کو عنوان کے تحت لائے ہیں:  ’’ وہ لوگ جن کو نبی اکرم ﷺ نے برا کہا یا ان کو بددعا دی حالانکہ وہ اس کے مستحق نہ تھے تو یہ ان کے لیے پاکی،  اجر  اور رحمت کا سبب ہوگی ‘‘ امام مسلم  رحمہ اللہ کا اشارہ بالکل واضح ہے کیونکہ میں بیان کر چکا ہوں کہ اس میں  یہ احتمالات ہیں کہ ممکن ہے کہ سیدنا  امیر معاویہ رضی الله عنہ کو نبی اکرم ﷺ کے بلانے  کی اطلاع ملی ہو مگر انہوں نے سمجھا ہو کہ فوراً حاضری  مقصود نہیں ہے یا وہ یہ سمجھتے ہوں کہ یہ حکم فورا ً ضروری نہیں جیسا کہ اکثر علمائے اصول کا مذہب ہے۔  ان احتمالات کے ہوتے ہوئے جو سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کے کمال، فقاہت اور مرتبے کے لائق ہیں  یہ بات صاف ظاہر ہے کہ وہ اس بددعا کے مستحق نہ تھے لہذا یہ بددعا ان کے لیے باعث پاکیزگی و ثواب پر مبنی ہوگی ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ مجھے بھی غصہ آتا ہے جس طرح تمہیں غصہ ہے لہذا جس کو میں برا کہوں یا اس پر لعنت کروں یا اس کو بددعا دوں اور وہ مستحق نہ ہو تو اے الله! میرے اس فعل کو اس کے لیے باعث پاکیزگی و ثواب اور رحمت بنا دے ۔  ‘‘

5۔ پانچویں وجہ بیان کرتے ہیں :  (یہ حدیث مبارکہ سیدنا  امیر معاویہ رضی الله عنہ کے مناقب میں ہے کیونکہ میرے پچھلے بیان سے واضح ہوگیا ہے کہ سیدنا  امیر معاویہ رضی الله عنہ کے لیے دعا ہے نہ کہ یہ  بددعا ہے، اور  امام نووی علیہ الرحمہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے) ۔

ديکھیں: (تطهير الجنان و اللسان عن خطورة و التفوة بثلب معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنه ، للإمام أبي العباس شهاب الدين أحمد بن محمد بن علي بن حجر الهيتمي المكي ، تحت ” الفصل الثالث في الجواب عن أمور ، ص 102 تا 104 ، مطبوعة دار الصحابة للتراث بطنطا ، طبع اول ١٤١٣ه‍/١٩٩٢)

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے