
کیا قرآن کریم میں حدیث نبوى کو لھو الحدیث کہا گیا ہے؟
وضاحتِ شبہ:
جو بھی چیز قرآن كريم کے مقابلے میں پیش کی جائےیا قرآن كريم سے مشغول کرے اسے قرآن نے لہو الحدیث کہاہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ) (سورۃ لقمان:6)
ترجمہ: اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو غافل کرنے والی بات خریدتا ہے، تاکہ جانے بغیر اللہ کے راستے سے گمراہ کرے اور اسے مذاق بنائے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
کیونکہ حدیث کو قرآن مجيد کے مقابلے میں پیش کیاجاتا ہےاور قرآن مجيد اللہ کی راہ ہےتو جو کچھ بھی اللہ کے راہ سے ہٹائےوہ لہو الحدیث ہے!۔
جوابِ شبہ
پہلی بات:
سب سے پہلے یہ سمجھنا انتہائی اہم ہےکہ حدیث کسے کہتے ہیں؟ اور حدیث کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟
’’ہر وہ قول ،فعل،تقریر یا صفت جو نبى كريم محمد ﷺ کی طرف منسوب ہو حدیث کہلاتی ہے‘‘
قول آپ کے فرامين مباركہ،فعل آپ کے اعمال،تقریر صحابہ کرام کا وہ فعل یا قول جو نبی ﷺ کی موجودگی میں ہوا اور آپ نے اسے برقرار رکھا یا آپ کے سامنے کسی کے عمل کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی یعنی منع نہیں فرمایا کوکہتے ہیں ۔
اب یہ جاننے اور سمجھنے کے بعد کہ حدیث آنحضرت ﷺ کے اقوال وافعال اور تقریرات کو کہا جاتا ہےآپ کی ان احادیث کامقام ومرتبہ جاننےکے لئےچندآیات ملاحظہ ہوں:
اللہ تعالی فرماتا ہے :
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (سورۃ النساء:65)
ترجمہ: پس نہیں! تیرے رب کی قسم ہے! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑ جائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں، پوری طرح تسلیم کرنا۔
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ( سورۃ النساء:115)
ترجمہ: اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت خوب واضح ہو چکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے۔
مذکورہ آیات سے فرمان نبوى ﷺ اور آپ ﷺ کے فيصلوں كا مقام ومرتبہ واضح ہو جاتا ہے۔
دوسری بات:
حدیث کا معنی اور اسکا مقام ومرتبہ جاننے کے بعد لہو الحدیث کا معنی بھی جاننا ضروری ہے تا کہ اس انتہائی نامعقول اور بے بنیادالزام کی از خود تردید ہو جائے ۔
"لہو” کا معنی ایسی بات یا چیز کے ہیں جو انسان کو غافل کردے اور "حدیث” کہتے ہیں كسى بات كو ۔
تو لہو الحدیث کا معنی ہوا: غفلت میں ڈالنے والی بات۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا حدیث نبوى غفلت میں ڈالنے والی بات ہے؟! ہرگز نہیں۔
حدیث کے بارے میں ادنی سے ادنی مسلمان بھی یہ نہیں سوچ سکتا جو حدیث قرآن کریم کی تشریح ہے، اور كائنات كے سب سے عظيم انسان كى باتيں اور فيصلے ہیں وہ بھلا کیسے غفلت میں ڈال سکتی ہے؟۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (سورۃ النحل:44)
ترجمہ: اور ہم نے آپ کی طرف یہ نصیحت اتاری، تاکہ آپ لوگوں کے لیے کھول کر بیان کر دیں جو کچھ ان کی طرف اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غور و فکر کریں۔
بلکہ حدیث نبوى ﷺ تو قرآن حكيم کی طرف رغبت دلاتی ہے نہ کہ اس سے غافل کرتی ہے،یہ بے جا دعوی تو تب صادق آتا جب احادیث نبویہ قرآن مجيدسے دور کرتیں مگر ہمیں تو احادیث میں قرآن مجيد پڑھنے اور اسے یاد کرنے اور اس پر تدبر كرنے اور اس پر عمل کی ترغیب ملتی ہے۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”صاحب قرآن (حافظ قرآن یا ناظرہ خواں) سے کہا جائے گا: پڑھتے جاؤ اور چڑھتے جاؤ اور عمدگی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ تم دنیا میں عمدگی سے پڑھتے تھے، تمہاری منزل وہاں ہے، جہاں تم آخری آیت پڑھ کر قراءت ختم کرو گے “(سنن ابوداود:1464)۔
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ۔۔۔قریب ہے کہ میرے پروردگار کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) آئے اور میں قبول کروں، میں تم میں دو بڑی بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، پہلے تو اللہ کی کتاب اس میں ہدایت ہے اور نور ہے، تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ غرض آپ ﷺنے رغبت دلائی اللہ کی کتاب کی طرف۔(صحیح مسلم:2408)
تیسری بات:
کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے رسولﷺ کی غیر مشروط اطاعت کا حکم فرمائےاو ر اسکی اطاعت کو اپنی اطاعت بتائے جیسا کہ ہمیں قرآن حکیم کی ان آیات سے پتہ چلتا ہے:
مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا (سورة النساء:80)
ترجمہ: جو رسول کی فرماں برداری کرے تو بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی اور جس نے منہ موڑا تو ہم نے آپ كو ان پر کوئی نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (سورة الحشر:7)
ترجمہ: اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ۔
اور پھر اس رسول کی حدیث (کے فرامین)کوجن کی اتباع لازم ہے کو "لہو الحدیث "کہے یہ بات اللہ رب العالمین کے حق میں محال ہے۔
چوتھی بات:
مذکورہ آیت کی صحیح تشریح کیا ہے اور لہو الحدیث سے کیا مراد ہے؟
اللہ تعالی فرماتا ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ (سورۃ لقمان:6)
ترجمہ: اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو غافل کرنے والی بات خریدتا ہے، تاکہ جانے بغیر اللہ کے راستے سے گمراہ کرے اور اسے مذاق بنائے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اوپر بیان ہوا تھا نیک بختوں کا جو کتاب اللہ سے ہدایت پاتے تھے اور اسے سن کر نفع اٹھاتے تھے۔ تو یہاں بیان ہو رہا ہے ان بدبختوں کا جو کلام الٰہی کو سن کر نفع حاصل کرنے سے باز رہتے ہیں اور بجائے اس کے گانے بجانے باجے گاجے ڈھول تاشے سنتے ہیں۔
چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”قسم اللہ کی اس سے مراد گانا اور راگ ہے“ (تفسیر ابن جریر الطبری:20 /127)
ایک اور جگہ آپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے تین دفعہ قسم کھا کر فرمایا کہ: ”اس سے مرادگانا اور راگ اور راگنیاں ہیں“۔یہی قول سیدنا عبد الله بن عباس ، سیدنا جابر رضی اللہ عنہم، عکرمہ، سعید بن جیبر، مجاہد، مکحول، عمرو بن شعیب، علی بن بذیمہ رحمہ اللہ علیہم کا ہے۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ” یہ آیت گانے بجانے باجوں گاجوں کے بارے میں اتری ہے “ ۔ (تفسیر ابن کثیرسورۃ لقمان آیت:6) ۔
تو یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہو جاتی کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین کے یہاں لہو الحدیث سے کیا مراد ہے،اس سے بھی مذکورہ عجیب وغریب بے دلیل دعوے کی تردید ہوتی ہے۔