کنواری لڑکی سے نکاح کی ترغیب  شان نبوت کے خلاف ہے!

کنواری لڑکی سے نکاح کی ترغیب  شان نبوت کے خلاف ہے!

وضاحت شبہ:
حدیث میں کنواری لڑکی سے نکاح کے بارے میں ترغیب کے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے وہ نبی کریم ﷺکے نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ سیدتنا عائشہ سے  روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں عرض کی: اللہ کے رسول! آپ مجھے بتائیں کہ اگر آپ کسی وادی میں پڑاؤ کریں، وہاں ایک درخت ہو جس میں اونٹ چر گئے ہوں اور ایک ایسا درخت سے اپنے اونٹ کو کھلائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”اس درخت سے جو کسی اونٹ کو نہ کھلایا گیا ہو۔“ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا  کا اشارہ اس طرف تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے علاوہ کسی کنواری لڑکی سے نکاح نہیں کیا۔ (صحیح البخاری : 5077)
جواب شبہ

 

پہلى بات:
اس حدیث میں کوئی معیوب کلام نہیں بلکہ عمدہ الفاظ میں ایک حقیقت کا اظہار ہے جسے کوئی ذی عقل رد نہیں کرسکتا۔

دوسرى بات :
یہ کلام تو نبی کریم کی شان اور عظمت کو بیان کرتا ہے کیونکہ اس اہم بات کو  انتہائی عمدگی اور فصیحانہ و جامع الفاظ میں بیان کیا گیا کہ مسئلے کی اہمیت بھی واضح ہوگئی اور الفاظ و مثال بھی مہذب رہے۔  یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ضرب مثل ، تشبیہ  وغیرہ کی مشروعیت کا استدلال کیا ہے۔   اس تشبیہ و کنایہ کو سیدہ عائشہ کا سمجھ جانااور  اس مسئلے کی طرف نشاندہی سے ان کی بلاغت و فطانت بھی واضح ہوتی ہے جیساکہ  سیدہ عائشہ کی اس بلاغت و فہم کو حافظ ابن حجر نے بھی اس حدیث کی روشنی میں بیان کیا ۔  خلاصہ یہ ہے کہ کسی معترض کا اس روایت پر اعتراض کرنا اس کی اپنی کج فہمی یا بد نیتی کو واضح کرتا ہے۔حدیث  میں  مستعمل اسلوب تو قابلِ تعریف و تحسین ہے نہ کہ قابل اعتراض!!

تيسرى  بات:
گذشتہ نکات میں اس بات کو واضح کردیا گیا ہے کہ یہ انداز و اسلوب  اخلاقی طور پر قابلِ اعتراض نہیں ہے ۔ رہی بات کنواری کے بارے میں خصوصی ترغیب کی تو کنواری عورت یا کنوارے مرد سے شادی  کی حیثیت و اہمیت دنیا کے تمام مذاہب و تہذیبوں اور قوانین میں مسلم ہے ۔

چوتھی بات :
دین اسلام رہنمائی کا دین  ہے  اور یہی اس دین کا امتیاز ہے لہذا رہنمائی کے لیے ایسا اسلوب اختیار کیا جانا بہت ضروری ہے جس سے مسئلہ کی حیثیت و اہمیت کے ساتھ ساتھ تفہیم بھی ممکن ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں بھی اس قسم کا اسلوب موجود ہے مگر اسے قابلِ اعتراض  قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ قرآن کریم میں ہے کہ

نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ  (البقرہ: 223)

ایک  مقام پر ہے :

فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ  (الاعراف:109)

لہذا احادیث میں موجود اس اسلوب کو تشکیک کی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے