موسی علیہ السلام کا برہنہ پتھر کے پیچھے دوڑنا!
وضاحت ِ شبہ :
حدیث میں ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام برہنہ پتھر کے پیچھے دوڑے یہ واقعہ ایک نبی کی شان و عظمت کے خلاف ہے بھلا ایک نبی برہنہ دوڑ نہیں سکتے ۔ نیز پتھر کا آگے آگے بھاگنا بھی عقل کے خلاف ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ ابوہریرہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا’’بنی اسرائیل ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہو کر غسل کرتے اور ایک دوسرے کو دیکھتے تھے، جبکہ موسی تنہا نہاتے۔ بنی اسرائیل نے کہا: اللہ کی قسم!موسی ہمارے ساتھ اس لیے غسل نہیں کرتے کہ وہ مرض فتق میں مبتلا ہیں۔ اتفاق سے ایک دن موسی نے نہاتے وقت اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیے۔ ہوا یوں کہ وہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر بھاگ نکلا۔ حضرت موسیٰ اس کے تعاقب میں یہ کہتے ہوئے دوڑے! اے پتھر! میرے کپڑے دے دے۔ اے پتھر! میرے کپڑے دے دےیہاں تک کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ کو دیکھ لیا اور کہنے لگے: واللہ! موسیٰ کو کوئی بیماری نہیں۔ حضرت موسیٰ نے اپنے کپڑے لیے اور پتھر کو مارنے لگے۔‘‘ ابوہریرہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! موسیٰ کی مار کے چھ یا سات نشان اس پتھر پر اب بھی موجود ہیں۔ (صحیح البخاری: 278 ، 3404، صحیح مسلم : 339)
جواب شبہ
پہلى بات:
یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ جہاں بڑی خرابی ہو اس سے بچنے کے لیے چھوٹی خرابی کو برداشت کرلینا چاہیے ۔ بنی اسرائیل نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی طرف مردانگی کے حوالے سے جس عیب کی نسبت کی وہ زیادہ برا تھا اور اور سراسر جھوٹ تھا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام حیا والے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت ِ کاملہ اور حکمت والے فیصلے کے ذریعے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ایک عیب کی نفی بھی کی اور معجزہ بھی ثابت ہوا۔
دوسرى بات:
یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ مجبوری کی صورت میں بعض ناجائز چیزوں کے معاملے میں رخصت ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں بعض حرام اشیاء جیسے مردار کا گوشت وغیرہ مجبوری کی صورت میں کھانا جائز ہے ۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا یہ واقعہ بھی ایک خاص تناظر میں ہے جس میں نبی کے بارے میں باندھے گئے جھوٹ اور استہزاء کے رد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ دفاع کا ایک انداز تھا ۔
تيسرى بات:
بائبل وغیرہ میں بھی یہ واقعہ موجود ہے ۔ یہی اعتراض بائبل پر بھی کیا جانا چاہیے۔
چوتھی بات :
اس واقعے میں موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ کا بیان ہوا ہے۔ اسے قابلَ اعتراض سمجھنا اس لیے بھی صحیح نہیں کہ لوگوں کی جب نظر پڑی تو لوگوں کا ارادہ اور نیت پہلے سے اس میں شامل نہ تھی ایک واقعہ رونما ہوا تو لوگوں نے دیکھا اور نہ موسیٰ علیہ السلام کا ارادہ اور نیت شامل تھی اور نہ ہی انہیں علم تھا کہ کوئی انہیں دیکھ لے گا ۔جبکہ اعمال کا دار ومدار نیت اور ارادے پر ہے بغیر ارادے کے انسان گناہ گار نہیں ہوتا۔ لہذا کسی بھی غلطی کی نسبت کسی کی طرف اسی وقت کی جاسکتی ہے جب اس کا ارادہ شامل ہو۔