
موت کا مینڈھے کی صورت میں ذبح کیا جانا!
شبہ کی وضاحت:
جیسا کہ حدیث میں آتا ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، ’’قیامت کے دن موت ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی ۔ ایک آواز دینے والا فرشتہ آواز دے گا کہ اے جنت والو ! تمام جنتی گردن اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے ، آواز دینے والا فرشتہ پوچھے گا ۔ تم اس مینڈھے کو بھی پہچانتے ہو ؟ وہ بولیں گے کہ ہاں ، یہ موت ہے اور ان سے ہر شخص اس کا ذائقہ چکھ چکا ہوگا ۔ پھر اسے ذبح کر دیا جائے گا….‘‘ (صحیح بخاری:4730، صحیح مسلم:2849)
شبہ یہ ہےکہ موت تو ایک کیفیت(حالت) کا نام ہے، جس کا نہ توکوئی جسم ہے اور نہ ہی ہم اسے دیکھ سکتے ہیں تو اس کا ذبح کیا جاناکیسے تصور کیا جاسکتا ہے،یہ ماورائے عقل بات ہے !
جوابِ شبہ
پہلی بات:
مذکورہ روایت حدیث کی صحیح ترین کتابوں یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے جو کہ کتاب اللہ کے بعد صحیح اور معتبرترین كتابيں ہیں اور اس بات پر تمام امت متفق ہے تو اس طرح حدیث کی صحت میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
دوسری بات:
رہی بات حدیث کے عقل سے ماورا ہونے کی تو یہ امر غیبیّات میں سے ہے جس کا ادراک انسانی عقل سے ہوناضروری نہیں بلکہ اس پر ایمان ضروری ہے، اللہ تعالیٰ نے متقین کی صفات میں ایمان بالغیب کو سب سے پہلے ذکر کیا ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے :
هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ( سورۃ البقرة:2،3 )
ترجمہ: بچنے والوں کے لیے سرا سر ہدایت ہے۔ وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے اور اس میں سے، جو ہم نے انھیں دیا ہے، خرچ کرتے ہیں۔
تیسری بات:
قيامت كا دن اپنى تفصيلات اور مدت اور اس ميں ہونے والے احوال كہ تعلق سے دنيا سے بالكل مختلف ہے تو اس دن كو ہمارے مشاہدات پر قياس كرنا درست نہیں، الله تعالى ہر چيز پر قادر ہے تو کیا یہ بات اللہ رب العزت کی قدرت سے بعید ہےکہ اللہ تعالی موت کو جسم عطا کردے! اگر نہیں تو اللہ تعالیٰ موت کو مینڈھے کی صورت(جسم) میں ڈھال دےگا پھراسےذبح کر دیا جائےگا.
• اسى طرح حدیث میں آتا ہےکہ بروز قیامت سورہ بقرہ اور آل عمران بادل کی شکل میں آئیں گی جبکہ ان سورتوں کا دنیا میں کوئی جسم( شکل) نہیں ہے۔
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ كہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا:”قرآن پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اصحاب قرآن کا سفارشی بن کر آئےگا۔دو روشن چمکتی ہوئی سورتیں:البقرہ اور آل عمران پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان ہوں یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑتے پرندوں کی وہ ڈاریں ہوں،وہ اپنی صحبت میں(پڑھنے اور عمل کرنے)والوں کی طرف سے دفاع کریں گی‘‘.
• اسى طرح قرآن مجيد میں اس بات كا ذكر ہے کہ روز قيامت میزان اور ترازو بندوں کے اعمال کو تولنے کے لیے لگایا جائے گا ، جب كے دنيا ميں اعمال كا كوئی جسم ہميں محسوس نہیں ہوتا.
اور شرعی نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ ترازو اور میزان حقیقی ہو گا جس کے دو پلڑے ہوں گے جن کے ساتھ بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا تو وہ ترازو اتنا عظیم ہے جس کی مقدار کا اندازہ اللہ تعالی کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا ۔
فرمان باری تعالی ہے :
وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ( سورة الانبیاء:47 )
ترجمہ: اور قیامت کے دن ہم انصاف والے ترازو کو درمیان میں لا کر رکھیں گے تو پھر کسی پر کچھ ظلم نہیں کیا جائے گا اور اگر ایک دانے کے برابر بھی عمل ہو گا ہم اسے ضرور لا حاضر کریں گے اور ہم حساب کرنے کے ليے کافی ہیں۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
قیامت کے دن ترازو کھا جائے گا اگر اس میں آسمان وزمین تولیں جائیں تو انہیں بھی وہ کافی رہے تو فرشتے کہیں گے اے ہمارے رب اس میں کس کا وزن کیا جائے گا ؟ تو اللہ تعالی جواب میں فرمائے گا اپنی مخلوق میں سے جسے میں چاہوں ( سلسلہ صحیحہ حدیث :941 )
چوتھی بات:
کسی بھی چیز کے وجود کا انحصار اس کے عقل میں آنے یا نہ آنےپر نہیں ہوتا کیونکہ جو بات خبر صادق سے ثابت ہو جائے اس کے بعد اس بات کا کسی کی عقل میں نہ آنا بے معنی رہ جاتا ہےجیسے کہ کوئی شخص کسی مخصوص شہریا جگہ جو اس نے نہ دیکھی ہو کے بارے میں کہے کہ میری عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ ایسا شہریا جگہ ہوسکتی ہےتو کیا اس بنیاد پر وہ شہر یا جگہ صفحہ ہستی سے مٹ جائےگی یا اس کے نہ ماننےسے اس جگہ کے وجود پر کوئی فرق آئےگا!
پانچوىں بات:
ہم آج ترقی کے اس دور میں مادّے کو توانائی میں تبدیل ہوتا ہوا پاتے ہیں جیسے ایندھن جو کہ ا یک محسوس شے ہےوہ توانائی میں تبدیل ہوجاتاہے جوکہ غیر محسوس شے ہے تو جب ایک محسوس غیر محسوس میں تبدیل ہوسکتا ہے تو قدرت الٰہی سے موت جو کہ غیر محسوس ہے اس کا محسوس جسم میں ڈھل جانا کیسے بعید سمجھا جاسکتا ہے۔