محدثين نے صرف سند كى چھان بين كى اور الفاظ حديث كو نظر انداز كر ديا!

محدثين نے صرف سند كى چھان بين كى اور الفاظ حديث كو نظر انداز كر ديا!

 شبہ کی وضاحت:
محدثين نے صرف سند (حديث بيان كرنے والے راوى = chain of narration) كى چھان بين كا اہتمام کیا اور متن (الفاظ حديث = text)، جس كى چھان بين كى زيادہ ضرورت تھی، اس كو نظر انداز كر ديا، جبکہ اصل تو متن ہی ہے اور احکام ومسائل بھی اسی سے ثابت ہوتے ہیں، چنانچہ اس وجہ سے احادیث كے معنى ومفھوم میں خلل واقع ہو گیا!۔
جوابِ شبہ

 

پہلى بات:
يقينا محدثین نے سند کی چھان بین بہت گہرائی سے کی اور سند کے ایک ایک راوی کے احوال ایسے بتائے جیسے ہم انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے متن کو نظر انداز کر دیا ہو كيونكہ علم حديث يا مصطلح حديث كے علم كا مفہوم ہی يہ ہے كہ يہ ايک ايسا علم ہے جس كے ذريعے سند اور متن كے احوال جانے جاتے ہیں ۔

دوسرى بات:
محدثين كا عمل اس بات كا واضح ثبوت ہے كہ وه سند كے ساتھ ساتھ متن پر بھی  گہری نظر ركھتے اور اس كو شريعت كے اصول وضوابط پر اچھی طرح پرکھتے تھے:
امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ سے کہا گیا: آپ كو كيسے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں راوى جھوٹ بول رہاہے؟ انہوں نے کہا: اگر وہ نبی اکرم ﷺ سے ايسى روایت کرے کہ "جب تک تم كدو كو ذبح نہ کر لو اس وقت تک اسے نہ کھاؤ”، تو میں جان ليتا ہوں کہ وہ جھوٹا ہے۔ المحدث الفاصل (ص 316).
مشہور محدث علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ہر حدیث جو تم دیکھو کہ وہ عقل سليم سے ، یا دين كے اصولوں سے متصادم ہے، جان لو کہ وہ من گھڑت ہے، لہٰذا اس كى طرف دھیان نہ دو”. الموضوعات (1/106)
يہاں اصول سے مراد كتاب وسنت اور اجماع امت ہے ۔

تيسرى بات:
باقى جہاں تک سند اور متن کی چھان بین ميں فرق کى ہے تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے کیونکہ الفاظ حدیث اور ان کی اسانید میں فرق ہے جیسے کہ بعض دفعہ ایک حدیث کی کئی ایک سندیں ہوتی ہیں اور متن ایک ہی ہوتا ہے، تو اسی وجہ سے ہم سند کی چھان بین كے تعلق سے اہتمام زیادہ پاتے ہیں اور متن کی چھان بین اسکے مقابلے ميں کم نظر آتی ہے۔

چوتھى بات:
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ سند کی چھان بین کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی! اس بات کا جواب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ ايسا متن کی صحت کو جانچنے کے لئے کيا گيا اور کیونکہ سند متن تک پہنچنے کا ذریعہ ہے، اسى ليے اس كو پرکھنے كا خوب اہتمام كيا گیا، كيونكہ درست راستہ ہی منزل مقصود تک پہنچاتا ہے۔

پانچوىں بات:
سند کی چھان بین ویسے بھی ایک ضروری امر تھا کیونکہ اگر سند کی چھان بین نہ ہوتی تو یہ اہم معاملہ مخفی رہ جاتا اور ہم اس کی چھان بین نہ کر پاتے، برعکس متن کے کیونکہ وہ ظاہر ہوتا ہے، اس میں وہ پوشیدگی نہیں جو کہ سند میں پائی جاتى ہے۔
محدثین کے منہج میں حديث کی جانچ پڑتال میں متن کی جانچ پڑتال بھی شامل ہے کیونکہ راویوں کا حافظہ جانچنے کے لئے ان کی روایات کے الفاظ کا ایک دوسرے سے تقابل کیا جاتا تھا ۔
امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

إذا أردت أن يصح لك الحديث، فاضرب بعضه ببعض ( الجامع للخطيب 2/452)

ترجمہ: اگر آپ حدیث کی درستگی جاننا چاہتے ہیں تو بعض کا بعض سے تقابل کریں۔

چھٹى بات:
صحیح حدیث کی تعریف میں اس کا شاذ یا معل نہ ہونا بھی شامل ہے جن دونوں کا تعلق متن کے ساتھ ہے مزید وہ موضوعات علم حديث جن كا تعلق متن كے ساتھ ہے ان میں "مدرج” اور "مقلوب” اور "مضطرب” وغيره شامل ہيں، اسى طرح محدثين "تصحيف وتحريف” اور "مختلف الحديث”  كے موضوعات كو علوم حديث ميں زير بحث لاتے ہیں جن كا اكثر وبيشتر تعلق حديث كے متن سے ہوتا ہے۔
 تو ثابت ہوا كہ محدثين نے جہاں سند كى چھان بین کی وہیں متن كو بكو بھی پركھا ۔

آخرى بات:
محدثين نے باقاعده ایسے اصول مقرر کیے ہیں جن سے حدیث كے الفاظ کو بھی پرکھا جاسکتا ہے، چنانچہ ايسى حديث جو كمزور الفاظ پر مشتمل ہو ، يا اس میں مبالغہ آرائى شامل ہو، يا اصول شريعت كى مخالفت ہو رہى ہو، يا ايسى بات ہو جو نبی ﷺ کے شايان شان نا ہو ايسى روايات كو محدثين تسليم نہیں كرتے۔
حافظ ابن قيم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (مجھ سے پوچھا گیا: کیا کسی حدیث كا درجہ اور حكم اس كى سند کے سلسلہ کو دیکھے بغیر جاننا ممکن ہے؟ تو ميں نے کہا: یہ بہت اہم سوال ہے، اور حديث كے علم میں گہرائى تک جانے والا ہی اسے جان سكتا ہے، ايسا شخص جس کے خون  میں حديث كا علم  شامل ہو، اور اس کے پاس حديث كو پرکھنے اور جانچنے كى بهرپور صلاحيت ہو، نبى اكرم ﷺ كى سنتوں اور آثار کو جاننے اور آپ کی سیرت کو جاننے میں خوب ادراک ركهتا ہو، كہ آپ ﷺ کس چیز کا حکم دیتے ہیں؟، اور كس سے منع کرتے ہیں؟، اور آپ كس عمل سے محبت کرتے ہیں، اور كس سے نفرت کرتے ہیں؟، وغيره وغيره، گویا ان محدثين كا حال ايسا ہے جيسے وه رسول الله ﷺ کے ساتھى ہوں)۔ المنار المنيف (ص43).

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے