وضاحت شبہ:
ایک حدیث میں آتا ہے: جو شخص اپنا دین تبدیل کر دے اسے قتل کر دو [صحيح البخاري:3017]۔ جبکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے {لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ} (سورۃ البقرۃ:256)۔ ترجمہ: دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ یہ آیت اور عقل دونوں اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ انسان دین اختیار کرنے میں آزاد ہے لہٰذا اگر کوئی دین چھوڑنا چاہے تو اس پر زور زبردستی نہیں کرنی چاہیے!
جواب شبہ
پہلی بات:
بعض لوگوں کے نزدیک حدیث کا قرآن کے مخالف ہونے کا معیار یہ ہے کہ اگر کوئی بات حدیث میں ہے اور قرآن میں نہیں ہے تو وہ اسے قرآن کے مخالف ہونا سمجھتے ہیں حالانکہ یہ مخالفت نہیں کہلاتی بلکہ اسے اضافى حكم کہتے ہیں۔ مخالفت یہ ہوتی ہے کہ قرآن مجيد میں ایک چیز کا اثبات ہو اور حدیث میں اس کی نفی ہو یا اس کے الٹ۔ مرتد کی سزا سے متعلق حدیث کا بھی یہی معاملہ ہے کہ حدیث میں اس سزا کا اثبات ہے اور قرآن مجيد میں اس کی نفی نہیں ہے۔ لہٰذا اسے قرآن كريم کے مخالف باور کروانا محض ایک مغالطہ اور ذہن میں غلط فہمی پیدا کرنا ہے۔
دوسری بات:
کسی حدیث کی صحت اس بات پر موقوف نہیں ہوتی کہ اس کا مضمون قرآن مجيدکے موافق ہے یا نہیں، کیونکہ موافقت یا عدم موافقت کا فیصلہ انسانی عقل کرتی ہے اور اس کا کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ کسی کے نزدیک وہ حديث قرآن مجيد سے ٹکراتی ہوگی اور کسی کے نزدیک نہیں۔ ایسی بے ضابطہ چیز حدیث پرکھنے کا ضابطہ بن ہی نہیں سکتی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ حدیث کی صحت کو دل کی پسند یا ناپسند پر موقوف کر دیا جائے، اگر دل پسند کرے تو حدیث صحیح اور اگر گِراں گزرے تو غیر صحیح۔ ہر عقلمند یہ جانتا ہے کہ پھر کوئی بھی حدیث باقی نہیں بچے گی۔
چنانچہ جس طرح قرآن مجيد کی کسی آیت کے ثبوت کے لیے یہ شرط نہیں لگائی جاتی کہ وہ کسی اور آیت سے نہ ٹکراتی ہو بالکل اسی طرح حدیث کی صحت میں بھی یہ شرط نہیں لگائی جاسکتی، کیونکہ حدیثِ نبوی بھی رب تعالی کی طرف سے بذریعہ رسولِ مکرم ﷺ ہمیں عطا کی گئی ہے۔
تیسری بات:
مرتد كى سزا قتل ہے، اس بات پر امت کا اجماع ہے، اور صحابہ کرام کا عمل بھی ہے۔
حضرت ابوبکر نے ان لوگوں سے جنگ کی جو نبى كريم كى وفات كے بعد دین اسلام سے مرتد ہوگئے تھے، اور تمام صحابہ کرام نے اس پر ان کی موافقت کی اور ان میں سے کسی نے مخالفت نہیں کی۔ صحيح بخارى (6526).
حضرت عمر بن الخطاب نے بھی مرتدین کے ایک گروہ کو قتل کرنے کا حکم دیا، جیسا کہ عبدالرزاق نے اپنی کتاب "المصنف” (19754) میں روایت کیا ہے: عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے عراق کے ان لوگوں کو پکڑا جو اسلام سے مرتد ہوگئے تھے، اور حضرت عمر کو ان کے بارے میں لکھا۔
حضرت عمر نے جواب دیا: ”انہیں دین حق اور لا الہ الا اللہ کی گواہی پیش کرو، اگر وہ اسے قبول کریں تو انہیں چھوڑ دو، اور اگر وہ قبول نہ کریں تو انہیں قتل کر دو۔‘‘
چنانچہ ان میں سے بعض نے اسلام قبول کیا تو انہیں چھوڑ دیا گیا، اور بعض نے قبول نہیں کیا تو انہیں قتل کر دیا گیا۔
اسی طرح حضرت علی بن ابی طالب نے بھی ایک جماعت کو قتل کیا جو دین سے مرتد ہوگئے تھے، اور حضرت عبداللہ بن عباس نے ان کے اس قتل کی توثیق کی، جیسا کہ صحیح بخاری (6922) میں ثابت ہے۔
امام عبدالرزاق نے "المصنف” (19758) میں ابو عمرو الشیبانی سے روایت کیا ہے: مستورد العجلی اسلام لانے کے بعد نصرانی ہوگیا، تو حضرت عتبہ بن فرقد نے اسے حضرت علی کے پاس بھیجا، حضرت علی نے اس سے توبہ کرائی مگر اس نے توبہ نہیں کی، تو حضرت علی نے اسے قتل کر دیا۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل نے بھی ایک یہودی کو قتل کیا جو پہلے اسلام لایا تھا اور پھر مرتد ہوگیا تھا، صحیح بخاری (7157) اور مسلم (1824) میں حضرت ابو بردہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ کے پاس ایک آدمی آیا جو پہلے مسلمان تھا اور پھر یہودی ہوگیا، حضرت معاذ نے کہا: ’’جب تک میں اسے قتل نہ کرلوں، بیٹھوں گا نہیں، یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ ہے۔‘‘
ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جو شخص دین سے مرتد ہو جائے، اس کا خون مباح ہو جاتا ہے اور اس کی گردن اڑا دی جاتی ہے، اور اس پر امت کا اجماع ہے۔” (التمهید 5 /306)
ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ نے فرمایا: "اہلِ علم کا اجماع ہے کہ مرتد کو قتل کرنا واجب ہے۔ یہ حضرت ابوبکر، عمر، عثمان، علی، معاذ، ابو موسی، ابن عباس، خالد اور دیگر صحابہ کرام سے روایت کیا گیا ہے، اور اس پر کسی نے انکار نہیں کیا، لہٰذا یہ اجماع ہوا” (المغنی 12 /264)
ياد رہے کہ ارتداد كى سزا اور تمام اسلامى حدود كا نفاذ صرف اور صرف حاكم وقت يا جس قاضى يا عدالت كو حاكم وقت مقرر کرے اس كا استحقاق ہے، اس کے علاوه عام افراد چاہے ان كا جيسا بهى مقام ومرتبہ ہو انہے یہ حق حاصل نہیں، ورنہ معاشرے ميں فساد برپا ہو جائے گا۔
چوتھی بات:
آیت (لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ) کا تعلق کسی کو دین میں زور وزبردستی سے داخل کرنے سے ہے، اس کا ارتداد پر سزا دینے یا نہ دینے دونوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر زبردستی نہ ہونے کا یہ مفہوم مان لیا جائے کہ ارتداد پر سزا نہیں دی جائے گی پھر تو ہر سزا کا ہی انکار ہونا چاہیے صرف ارتداد کی سزا ہی کیوں؟ کیونکہ زبردستی کیے بغیر تو سزا دی ہی نہیں جاسکتی، پھر تو یہ آیت صرف مرتد کی سزا کے خلاف نہ ہوئی بلکہ ہر سزا کے خلاف ہوئی چاہے اس کا ذکر قرآن میں ہی کیوں نہ ہو۔ اب ظاہر ہے کہ تمام سزاؤں کا تو انکار نہیں کیا جاسکتا لہٰذا ثابت ہوا کہ آیت کا وہ مفہوم درست نہیں جو سمجھا گیا ہے اور جس کی بنیاد پر حدیث کو اس کے مخالف تصور کیا گیا ہے۔
آیت کا درست مفہوم یہ ہے کہ اسلام کسی کو اپنے اندر زور زبردستی داخل کرنے کا قائل نہیں ہے،کیونکہ کسی چیز پر زبردستی تب کی جاتی ہے جب اس کے دلائل واضح نہ ہوں یا وہ عقل و فطرت کے خلاف ہو یا وہ دل پر گراں ہو، جبکہ دینِ اسلام میں ایسا کوئی عیب نہیں، اس کے دلائل واضح ہیں، عقل و فطرت کے عین مطابق ہیں، آسان ہونے کی وجہ سے دل پر گراں بھی نہیں،لہٰذا جو شخص اتنے واضح دلائل کے باوجود بھی اسے قبول نہ کرے تو اس دین کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ اسے زبردستی اس میں داخل کرے، پھر زبردستی میں لایا گیا ایمان درست بھی نہیں ہوتا (تفسیر سعدی)۔
اس کی مثال یوں سمجھیے کہ اگر کوئی کھانا خود ہی اتنا لذیذ ہو کہ ہر شخص اسے کھانے کی رغبت رکھتا ہو، کیا ایسے کھانے پر کوئی کسی کو مجبور کرتا ہے؟ کسی کھانے پر مجبور کرنے کی حاجت تب ہی پیش آتی ہے جب وہ کھانا خود لذیذ نہ ہو جسے قیدیوں کا کھانا یا بیماروں کا کھانا۔ یہی وجہ ہے کہ (لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ) کے فوری بعد یہ فرمایا (قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ) کہ ہدایت گمراہی سے واضح اور الگ ہو چکی ہے۔ یعنی اس میں زبردستی اسی لیے نہیں ہے کیونکہ یہ بالكل واضح ہے۔
پانچویں بات:
مرتد کو ارتداد کے فوراً بعد قتل نہیں کیا جاتا، خصوصاً اگر اس کی ارتداد کسی شبہ (doubt) کی وجہ سے ہو، بلکہ اسے توبہ کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اور اسلام میں واپس آنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اگر اس کے ذہن میں کوئی شبہ ہو تو اسے دور کیا جاتا ہے، اور اگر وہ اس کے بعد بھی کفر پر اصرار کرے تو پھر اسے قتل کیا جاتا ہے۔
ابن قدامہ نے "المغنی” (12 /268) میں فرمایا ہے: (( مرتد کو قتل نہیں کیا جاتا جب تک اسے تین مرتبہ توبہ کا موقع نہ دیا جائے۔ یہ اکثر علماء کا قول ہے، جن میں حضرت عمر، علی، عطاء، نخعی، مالک، ثوری، اوزاعی، اسحاق اور اصحاب الرائے شامل ہیں۔ کیونکہ ارتداد عموماً کسی شبہ کی وجہ سے ہوتا ہے، اور وہ شبہ فوراً دور نہیں ہوتا، لہٰذا ضروری ہے کہ کچھ مدت انتظار کیا جائے، اور اس کے لیے سب سے بہتر مدت تین دن ہے ))۔
چھٹی بات:
مرتد کی یہ سزا کیوں ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے اگر باغی یا غدار کے کردار کو سامنے رکھا جائے تو بآسانی سمجھ آسکتی ہے۔ جس طرح ایک باغی شخص کسی مملکت کے وجود کو چیلنج کرتا ہے اور اگر اس کی بغاوت کو نہ روکا جائے تو ناسور بڑھتا جاتا ہے اور پورے ملک کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے، اسی طرح ارتداد دراصل دینِ اسلام کے وجود کو چیلنج كرتا ہے۔ جس طرح بغاوت کو کسی شخص کا ذاتی موقف سمجھ کر چھوڑا نہیں جا سکتا اسی طرح ارتداد کو بھی شخصی آزادی کا نام دیکر چھوڑا نہیں جا سکتا۔ جس طرح کوئی بھی مملکت اپنے وجود کے دفاع کا حق محفوظ رکھتی ہے اسی طرح دینِ اسلام بھی یہ حق محفوظ رکھتا ہے۔ الغرض مرتد کی سزا موت کو مقرر کرکے دینِ اسلام نے کوئی اجنبی کام نہیں کیا بلکہ ہر ملک کے قانون میں باغی کی سزا کم و بیش یہی ہے۔
ساتویں بات:
جہاں تک کسی شخص کی دینی آزادی کی بات ہے جس کا آج کل مغرب بہت شور مچاتا ہےکہ ہر شخص دین اختیار کرنے میں آزاد ہے، وہ کسی بھی دین میں داخل ہو یا کسی دین سے خارج ہو۔ درحقیقت وہ لوگ بھی انسان کو دین اختیار کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں دیتے، ان کے یہاں بھی دینی آزادی صرف اس حد تک ہے جب تک انسان دین کو حکومتی معاملات سے الگ رکھتا ہے، لیکن جیسے ہی کوئی حکومتی معاملات میں مداخلت کرے تو وہ سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ دین کو حکومتی معاملات سے الگ رکھنے کا نام سیکولرزم ہے جو کہ بذاتِ خود ایک دین ہے۔ یعنی مغربی دنیا بھی انسان کو سیکولرزم سے خارج ہونے کی اجازت نہیں دیتی یا دوسرے لفظوں میں جس طرح ہمارے نزدیک اسلام سے خارج ہونا ارتداد ہے اسی طرح سیکولرزم سے خارج ہونا ان کے نزدیک ارتداد ہے اور دونوں کے نزدیک یہ قابلِ مؤاخذہ جرم ہے۔
آٹھویں بات:
عام طور پر مرتد کی سزا پر وہ لوگ اعتراض کرتے ہیں جو کسی آسمانی دین کو نہیں مانتے، یہی وجہ ہے کہ وہ دین کےنقصان کو نقصان نہیں سمجھتے، البتہ جان کے نقصان کو نقصان سمجھتے ہیں، اسی لیے ان کے لیے یہ بات تو معقول ہے کہ کسی کو قتل کے بدلے قتل کیا جائے لیکن مرتد ہونے کی بنا پر قتل کیا جائے یہ خلافِ عقل ہے۔ جبکہ دین کا نقصان جان کے نقصان سے زیادہ خطرناک ہے، جس طرح ایک قاتل لوگوں کی جانوں کےلیے خطرہ ہو جاتا ہے اسی طرح مرتد لوگوں کے دین کے لیے خطرہ بن جاتا ہے، جس طرح قاتل کو سزا دینے سے باقی لوگوں کی جان امن میں آجاتی ہے اسی طرح مرتد کو سزا دینے سے لوگوں کا دین امن میں آجاتا ہے۔ لہٰذا مرتد کے قتل کی اہمیت صرف دین کو ماننے والا ہی سمجھ سکتا ہے۔