وضاحتِ شبہ :
حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک رات میں تمام بیویوں سے ازدواجی تعلقات قائم کیے۔ ( صحیح بخاری:5068 )
جبکہ عقلی طور پر ایسا ممکن نہیں اور نبی کریم ﷺ تو الله تعالى كى عبادت اور مسلمانوں کے معاملات میں مصروف رہتے، اور یہ معاملہ نظافت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
جوابِ شبہ
پہلى بات:
اس واقعے کو خلافِ عقل قرار دینا صحیح نہیں جبکہ قرآن مجيد ميں اور مستند احاديث مباركہ ميں انبياء كرام كى مختلف خصوصيات اور منفرد صلاحيتوں كا ذكر موجود ہے، نبی کریم ﷺ کی قوت کا امتیاز بھی كئ ايک احاديث ميں بيان ہوا ہے ۔ ديكھیں: صحيح بخارى 268، 4101، صحيح مسلم 1479، 523، فتح البارى (1 /377)۔
دوسرى بات:
اسے نظافت کے اصولوں کے خلاف دینا درست نہیں کیونکہ یہ واقعہ اس بات كو بيان كرنے كے لیے ہے کہ ازدواجى تعلق قائم کرنے کے بعد غسل کرلیا جائے تو بہتر ہے وگرنہ شرمگاہ کو دھو لينا يا وضو كرلينا بھی درست ہے۔ نبی کریم ﷺ نے غسل نہ کرکے امت کے لیے عملی رہنمائی فراہم کی کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ امام بخارى نے اس حديث پر يہ عنوان قائم كيا : (اس بات كا بيان کہ مرد اپنی تمام ازواج كے پاس ایک ہی غسل سے جائے)۔
تيسرى بات:
واضح رہے کہ نبی کریم ﷺ کا یہ عام معمول نہیں تھا بلکہ آپ ﷺ کا عام معمول تو مقرر کردہ باریوں کے مطابق ازدواجی زندگی گزارنا تھا۔ لیکن بعض موقع پر ايسا ہوا مثلاً نبی کریم ﷺ سفر سے آئے یا مقرر کردہ باریوں کا ایک شیڈول مکمل ہونے کے بعد دوسرا شیڈول شروع ہونے سے قبل آپ ﷺ تمام بیویوں کے پاس گئے.
ايک اور شبہ يهاں يہ پيش كيا گيا کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم ايسا كيسے كرسكتے ہیں جبكہ آپ اپنى ازواج ميں برابرى اور عدل فرمايا كرتے!
تو جواب يہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اگر کسی بیوی کی باری کے دن سب کے پاس گئے تو یقیناً اس ميں ان أم المؤمنين کی اجازت شامل ہوگی کیونکہ نبی کریم ﷺ ہميشہ عدل قائم کرتے تھے حتی کہ آپ ﷺ كى وفات سے چند دن قبل جب آپ ﷺ شدید بیمار تھے اور آپ کو ہر باری کے دن علیحدہ علیحدہ ہر بیوی کے حجرے میں منتقل کیا جاتا، جس میں خاصی مشکل بھی ہوتی اور آپ ﷺ روزانہ پوچھتے کہ کل کس کی باری ہے؟ جس سے گھر والوں نے یہ اندازہ لگایا کہ آپ ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہنا چاہتے ہیں تو تمام بیویوں کی رضامندی سے آپ ﷺ کو حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں منتقل کردیا گیا۔ (صحیح بخاری : 4450) .
معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ بیماری کے عالم میں مشقت کو برداشت کرتے ہوئے بیویوں کی باریوں کو پوری طرح سے ادا کر رہے تھے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام بیویوں نے نبی کریم ﷺ کی آسانی کے لیے انہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں منتقل کرنے کو بہتر جانا۔ یعنی ازواجِ مطہرات اپنی باریاں ایک دوسرے کے لیے چھوڑ دیتی تھی ۔
سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے خود اپنی باری سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا كو دے رکھی تھی۔ (صحیح بخاری : 5215، صحیح مسلم : 1463)
ان دلائل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کسی بیوی کی باری کے دوران نبی کریم ﷺ نے تمام بیویوں کو وقت دیا ہے تو ايسا اس بیوی کی رضامندی سے ہوا اور یہ امت کی تعليم ورہنمائی کے لیے کیا گیا ۔