
نبی کریم ﷺ پر جادو عقل کے خلاف ہے!
وضاحت شبہ :
حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺپر جادو کیا گیا جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول جاتے تھے (صحیح بخاری: 5765، صحیح مسلم: 2189 ) اس حدیث کو ماننے سے دین ِ اسلام کے محفوظ ہونے پر شکوک و شبہات وارد ہوتے ہیں اور یہ عقلاً بھی ممکن نہیں کہ نبی کریم ﷺ پر شیطانی اثرات یا جادو کے اثرات غالب آجائیں۔
جواب شبہ
پہلى بات:
قرآن کریم سے جادو کی حقیقت اور اس کے اثرات ثابت ہیں جیسا کہ درج ذیل قرآنی آیات میں جادو اور اس کے اثرات کا بیان موجود ہے ۔
[ البقرۃ : 102 ،یونس : 81 ، طہ : 71 ، 73 ، الانبیاء : 03 ، الشعراء : 49 ] اور متعدد آیات میں کفار کے یہ کہنے کا تذکرہ موجود ہے کہ وہ قرآن كريم اور معجزات کو جادو سمجھتے تھے۔
دوسری بات:
اکثر اہل علم جادو کے اثرات اور اس کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ بعض اہل علم نے جادو کى تاثير پر امت كا اجماع (مكمل اتفاق) نقل کیا ہے۔
امام بغوی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں :
والسحر وجوده حقيقة عند أهل السنة وعليه أكثر الأمم، ولكن العمل به كفر ( شرح السنة 12/188 )
ترجمہ: اہل سنت اور اکثر امتوں کے یہاں جادو ايک حقیقت ہے البتہ اس پر عمل کفر ہے۔
امام خطابی فرماتے ہیں :
قد أنكر قوم من أصحاب الطبائع السحرَ، وأبطلوا حقيقته، والجواب: أن السحر ثابت، وحقيقته موجودة، اتفق أكثرُ الأمم من العرب والفُرْس والهند وبعض الروم على إثباته، وهؤلاء أفضل سكان أهل الأرض، وأكثرهم علمًا وحكمة ( شرح السنة 12/188 )
ترجمہ: اصحاب الطبائع میں سے ایک قوم نے جادو کا انکار کیا ہے جبکہ جادو ثابت ہے اور اس کی حقیقت موجود ہے ۔ عرب ، فارسی ،ہند ، بعض رومیوں سمیت اكثر قومیں اسے تسلیم کرتی ہیں اور یہ قوم اہل دنيا میں افضل اور علم وحکمت میں زیادہ ترقى يافتہ سمجھے جاتے ہیں ۔
امام قرطبی فرماتے ہیں :
ذهب أهل السنة إلى أن السحر ثابت وله حقيقة ( تفسير القرطبي 2/46 )
ترجمہ: اہل السنہ جادو کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں ۔
امام نووی فرماتے ہیں :
والصحيح أن السحر له حقيقة، وبه قطع الجمهور، وعليه عامة العلماء، ويدل عليه الكتاب والسنة الصحيحة المشهورة ( فتح الباري 10/222 )
ترجمہ: صحیح بات یہ ہے کہ جادو کی حقیقت ہے اور یہی مؤقف جمہور علماء کا ہے اور اس پر قرآن کریم اور صحیح احادیث دلالت کرتی ہیں۔
ابن ابی العز الحنفی کہتے ہیں :
وقد تنازع العلماء في حقيقة السحر وأنواعه، والأكثرون يقولون: إنه قد يؤثِّر في موت المسحور، ومرضه، من غير وصول شيء ظاهر إليه ( شرح العقیدۃ الطحاویۃ )
ترجمہ: علماء نے جادو کی حقیقت اور اقسام کے بارے میں اختلاف کیا ہے اور اکثر اہل علم كا موقف يہ ہے کہ جادو شدہ انسان بيمار بھی ہوجاتا ہے اور موت كے منہ ميں بھی جا گرتا ہے جبكہ اس ميں کوئی ظاہری اثرات نظر نہیں آرہے ہوتے ۔
مذکورہ اقوال سے ثابت ہوا مسلمانوں سمیت دیگر اقوام میں بھی جادو کی تاثیر قابل قبول ہے سوائے چند افراد کے جو القلیل کالمعدوم کے مصداق ہیں۔
تيسرى بات:
نبی کریم ﷺ پر جو جادو ہوا اس کے اثرات کے باعث کوئی اہم بات بالخصوص شرعی مسائل میں سے کوئی بھی اہم چیز نبی کریم سے تلف نہیں ہوئی۔
چوتھی بات :
جادو کے اثرات کے انکار کی یہ وجہ بیان کرنا کہ جادو کو تسلیم کرلینے سے معجزات اور جادو کے مابین برابری لازم آئے گی۔ اس لیے جادو کی حقیقت کا انکار کردیا گیا ، یہ نکتۂ نظر صحیح نہیں کیونکہ جادو اور معجزات میں بڑا واضح فرق موجود ہے۔ جنہیں چند نکات کی صورت میں سمجھا جاسکتا ہے۔
1۔ نبی جو بات کہتے ہیں وہ سچی ہوتی ہے ، اس کی تکذیب نہیں کی جاسکتی ، جبکہ جادوگر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ ( الشعراء : 221 ، 222 )
2۔ انبیاء کی دعوت، افعال اور جادوگروں کے اعمال وحرکات میں بڑ افرق ہوتا ہے، انبیاء كرام نیکی ، عدل ، اللہ تعالیٰ کی عبادت اور آخرت کی تیاری کا حکم دیتے ہیں جبکہ جادوگر کے اعمال میں شرک ، خرافات اور گناہ نظر آتا ہے۔
3۔ جادوگروں اور کاہنوں کے افعال ، منتر اور جادو کے خاص طریقے ہوتے ہیں جبکہ انبیاء كرام اس قسم کے طریقوں سے بالکل دور رہتے ہیں ۔
4۔ جادو سیکھ کر ، تجربے کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے جبکہ معجزات خالص اللہ تعالیٰ کی توفیق اور عطا ہوتی ہے۔
5۔ جادوگروں کی خبروں ، ان کے افعال اور منتروں میں باہم تعارض ہوسکتا ہے جبکہ انبیاء كرام کی خبریں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہیں ان میں کوئی تعارض نہیں ہوتا۔
6۔ جادو کا سیکھنا جب ممکن ہوا تو جادو کے اثرات بھی رونما ہوے جبکہ معجزات کا نہ ہی سیکھنا ممکن ہے اور نہ ہی یہ انبیاء کے علاوہ کسی اور کے لیے ان كو انجام دينا ممکن ہے۔
7۔ انبیاء كرام کے اوامر واحكامات لوگوں کی فلاح وبہبود اور مصلحتوں پر مشتمل ہوتے ہیں جبکہ جادو گر سے اس قسم کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔
ان نکات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ جادو اور معجزات میں واضح فرق موجود ہے پھر کیونکر ان کی برابری کو معیار بناکر معجزات کا انکار کیا جائے!۔
پانچويں بات:
اس حدیث کو قرآن کی آیت
وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ( المائدہ:67 )
ترجمہ: اور اللہ تعالى لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا۔
کے مخالف قرار دے کر انکار کرنا صحیح نہیں بلکہ قرآن کریم میں نبی کریم ﷺ كو لوگوں کی تکالیف سے بچانے کا تذکرہ موجود ہے، جادو کا معاملہ اس سے مختلف ہے
چھٹی بات:
بعض حضرات كا يہ كہنا کہ جادو شیطانی اور خبیث عمل ہے ، اس لیے یہ نبی کریم ﷺ کے جسد اطہر پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ اس دعوی کے بطلان کے لیے قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے ہیں ، قرآن کریم میں مذکور ہے :
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْآتِهِمَا ( الاعراف : 20 )
ترجمہ: تو شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ پیدا کیا، تاکہ ان کے بدن کا جو حصہ (یعنی شرمگاہ) ایک دوسرے سے پوشیدہ تھا اسے دونوں کے سامنے ظاہر کردے۔
سیدنا ایوب علیہ السلام کے حوالے سے مذکور ہے:
وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ ( ص:41 )
ترجمہ: اور آپ ہمارے بندے ایوب کو یاد کیجیے، جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور مصیبت پہنچائی ہے۔
قرآن کریم کی ان آیات سے معلوم ہوا کہ شیطان کی اصل دشمنی اللہ والوں سے ہی ہے ، جس کی وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ لہذا جادو کا اثر نبی کریم ﷺ پر ہوا البتہ وہ اس حد تک اثر انداز نہیں ہوسکا اور نہ ہی ہوسکتا ہے کہ شرعی امور یا وحی کے امور متاثر ہوجائیں۔
امام ابن القيم فرماتے ہیں: (آپ ﷺ پر جو جادو ہوا وہ ان بیماریوں میں سے تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بعد ميں شفا بخش دى تھی، اور اس میں کوئی نقص كا پہلو نہیں کیونکہ بیماری انبیاء كرام كو لاحق ہوتی ہے، اور آپ ﷺ بعض مرتبہ مرض كى شدت سے بیہوش بھی ہوے، گھوڑے سے گرنے سے آپ کا کاندھا بھی اترا، اسى طرح آپ ﷺ كو اور سابقہ انبياء كو خوب تكليف دى گئی، بعض انبياء كو قتل تک كر ديا گیا، تو اس ميں كوئی حيرانى كى بات نہیں كہ آپ ﷺ پر دشمن كى طرف سے جادو كے ذريعہ حملہ ہو، جس طرح آپ كے كاندھے پر بعض دشمنوں نے دوران نماز اونٹ كے فضلات ڈال دیے تھے، ان امور سے انبياء كرام کے اجر وثواب ميں اضافہ ہوتا ہے، اور لوگوں میں سب سے زیادہ سخت مصیبت انبیاء پر ہی آتی ہے). بدائع الفوائد (2/ 742).