نبی کریم ﷺ کے  ام المؤمنين صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح پر کیے گیے اعتراضات

نبی کریم ﷺ کے   ام المؤمنين صفیہ رضی اللہ  عنہا سے نکاح پر کیے گیے اعتراضات

جوابِ شبہ


سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا  سے نکاح کے حوالےسے بہت سی باتیں جھوٹ  پر مبنی  ہیں جن کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں جن میں سے چند یہ ہیں ۔
۱۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا   اس شادی پر رضامند نہ تھیں
یہ جھوٹ ہے کیونکہ حدیث میں وضاحت ہے کہ نبی کریم ﷺنے  سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا   کو  یہ اختیار دیا تھا کہ چاہیں تو وہ اپنے اہل و عیال کی طرف چلی جائیں یا انہیں آزاد کردیا جائے اور نبی کریم ﷺ ان سے شادی کرلیں۔تو سیدہ صفیہ  رضی اللہ عنہا  نے اِسی کو اختیار کیا۔ (صحیح ابن حبان : 4628)

۲۔ یہ نکاح ان کی عدت ختم ہونے سے پہلے ہوا تھا
 یہ اعتراض بھی غلط بيانى پر مشتمل ہے ، جس کا جواب جاننے سے پہلے یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ قیدی عورت کی عدت استبراء رحم (نكاح كے ليے تيار ہونا)  کے لیے  ایک حیض ہے ۔ نہ کہ تین حیض۔ اور سیدہ صفیہ  رضی اللہ عنہا   راستے میں  مخصوص ایام پورے كرچكى تھیں۔ جیساکہ صحیح بخاری میں "حَلَّت” ( یعنی حیض  كى مدت پورى كرچکی تھیں) کے الفاظ موجود ہیں۔  (صحیح بخاری : 3974)

۳۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا   نبی کریم   ﷺ کو پسند نہ کرتی تھی
(معاذاللہ )  یہ بھی خلاف ِحقیقت اور سراسر جھوٹ ہے کیونکہ  سفر میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ انتہائی مل کر سفر کرنا (صحیح بخاری : 3974 )  نبی کریم ﷺ کے ساتھ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا   کا ایسا تعلق کہ حالت اعتکاف میں بھی رسول اللہ ﷺ کی زیارت کے لیے آنا(صحیح بخاری : 3281)  ایک موقع پر جب سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا  یہ سمجھیں کہ رسول اللہ ﷺ ناراض ہیں اور باری بھی انہی کی تھی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا   کو اپنی باری دیتے ہوئے کہا کہ   میں اپنی  باری بیچنے کا بھی نہیں سوچ سکتی، ليكن تمہیں ہبہ کر رہی ہوں تاکہ تم رسول اللہ ﷺ کو میرے بارے  میں راضی کردو۔ (مسند احمد : 26866) 

۴۔ محض سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا   کی خوبصورتی کی وجہ سے یہ شادی ہوئی
یہ بھی حقیقت سے دور بات   ہے ، صحیح مسلم میں ہے کہ  نبی کریم ﷺ نے جب قیدیوں کو تقسیم کیا تو  سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا   دحیہ  الكلبى رضى الله عنہ کے حصے میں آئیں  مگر بعض صحابہ کے توجہ دلانے پر کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا    قریظہ و نضیر کے سردار حُیی بن اخطب  کی بیٹی ہیں ، اس خاندانی مقام کے لحاظ سے ان كا آپ  ﷺكے نكاح میں ہونا زياده بہتر ہے ۔ تب نبی کریم ﷺ نے اس رائے کو پسند فرماتے ہوئے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا   کو آزاد فرما کر ان  سے نکاح كرلیا۔ ( صحیح مسلم : 1365 )

۵۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ نبی کریم ﷺ نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا   کے والد اور شوہر کو مار کر  صفیہ رضی اللہ عنہا   سے شادی کرلی
یہ اعتراض بھی غیر جانبدارانہ ہے ، اس لیے کہ یہود کا مسلمانوں سے رویہ بڑا سازشی  تھا وہ ہمیشہ مسلمانوں سے جلتے بھنتے اور سازش کا کوئی موقع ہاتھ سے خالی نہ جانے دیتے ۔ان کی مسلسل اس قسم کی روش سے مختلف جنگوں میں بد عہدیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جس کی مثالیں جنگ  رجیع ،و معونہ وغیرہ ہیں۔  اور پس پردہ مشرکین مکہ کی حمایت كا  کام بھی کرتے  رہے۔  حتی کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے خاتمے کا پروگرام بنالیا ۔ چنانچہ جب نبی کریم ﷺ اپنے چند صحابہ کے ہمراہ ایک دیت کی اعانت میں بنو نضیر کے پاس آ ئے تو انہوں آپس میں مشورہ  کرکے  نبی کریم ﷺ  پر اوپر سے چکی گراکے  قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آپ کو خبر دی ۔یوں آپ بغیر بتائے فورا ہی وہاں سے اٹھ کر چلے گئے اور بعد میں بنو نضير كو  جلا وطن كرنے كا فيصلہ فرمايا ۔ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب نے عبداللہ بن ابی کی طرف سے معاونت کے اظہار اور بنو قریظۃ وغیرہ کے ساتھ دينے کی بنیاد پر مقابلہ کا اعلان  کیا اور جنگ ہوئی اس دورا ن کھجور کے درخت جلائے گئے۔ کیونکہ یہ ان یہودیوں کے لیے دورانِ جنگ تحفظ کا باعث بنے ہوئے تھے جس کی اوٹ میں وار کر کے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہے محاصرے نے کچھ زیادہ طول نہیں پکڑا۔ بلکہ صرف چھ رات …یابقول بعض پندرہ رات  جاری رہاکہ اس دوران اللہ تعالى نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوگئے۔ اور رسول اللہ ﷺکو کہلوا بھیجا کہ ہم مدینے سے نکلنے کو تیار ہیں۔ آپ نے ان کی جلاوطنی کی پیش کش منظور فرمائی۔ اور یہ بھی منظور فرمالیا کہ وہ ہتھیار کے علاوہ باقی جتنا سازوسامان اونٹوں پر لادسکتے ہوں سب لے کر بال بچوں سمیت چلے جائیں۔ بنو نضیر نے اس منظوری کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور اپنے ہاتھوں اپنے مکانات اجاڑ ڈالے ، اور چھ سو اونٹوں پر لادکر روانہ ہوگئے۔ بیشتر یہود اور ان کے اکابر مثلاًحُیی بن اخطب اور سلام بن ابی الحُقَیق نے خیبر کا رُخ کیا۔ ایک جماعت ملک شام روانہ ہوئی صرف دوآدمیوں، یعنی یامین بن عمرو اور ابو سعید بن وہب نے اسلام قبول کیا۔ لہٰذا ان کے مال کو ہاتھ نہیں لگایاگیا۔
خیبر جاکر بھی  یہودیوں کا  رویہ ایسا ہی رہا اسی لیے غزوہ خیبر کی نوبت آئی ۔  کنانہ  جس نے بد عہدی بھی کی اور بنو نضیر کا  خزانہ چھپايا  تھا اور محمود بن مسلمہ کو قلعہ ناعم کی دیوار کے نیچے  سایہ حاصل کرنے کے لیے بیٹھے تھے اس شخص نے ان پر چکی کا پاٹ گرا کر انہیں قتل کردیا تھا ۔ اس لیے جب  نبی کریم ﷺ کی طرف سے کنانہ محمد بن مسلمہ کے حوالے کیا گیا تو انہوں نے  محمود بن مسلمہ کے بدلے اسے قتل کردیا۔
اور حیی بن اخطب کے قتل کی بھی یہی وجہ بنی ۔ بلکہ غزوہ خیبر کے بعد جب قیدیوں کو تقسیم کردیا گیا اس وقت نبی کریم ﷺ صفیہ بنت حیی رضی اللہ  عنہا کو بھی دحیہ کے حوالے  کرچکے تھے لوگوں کے توجہ دلانے پر  کہ یہ بنو نضیر اور بنو قریظہ کی سیدہ ہیں اس لحاظ سے آپ کے شایان شان ہیں۔ آپ ﷺ نے انہیں آزاد کرکے نکاح کرلیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان   کے والد اور شوہر کے قتل کی وجہ ان کی بد عہدی تھی نہ کہ سیدہ صفیہ  رضی اللہ عنہا  سے نکاح۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے