قرآنِ مجيد ميں حديث کو ماننے اور اس پر عمل کرنے سے منع كيا گيا ہے!

قرآن مجيد ميں حديث کو ماننے اور اس پر عمل کرنے سے منع كيا گيا ہے!

وضاحتِ شبہ: الله تعالى نے فرمايا : اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاء ( سورةالاعراف:3 )
ترجمہ: ”اس پر چلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اولیاء کے پیچھے مت چلو”
اور فرمايا: فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (سورةالاعراف : 185)
ترجمہ: "پھر اس (قرآن) کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے”۔ ان دو آيات سے معلوم ہوا كہ بندوں كو قرآن مجيد كے علاوہ كسى شے كى پيروى كا پابند نہیں كيا گیا!
جوابِ شبہ

پہلی آیت میں اللہ رب العالمین مومنوں کو وحی پر ثابت قدم رہنے کا حکم دے رہا ہے اور اس کے علاوہ باطل راستوں کی پیروی سے منع فرما رہا ہے جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں علماء نے ذکر کیا ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: آيت مباركہ "اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ” ترجمہ: "اس کے پیچھے چلو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے” اس سے مراد کتاب و سنت ہے… یعنی دینِ اسلام اور قرآن کی پیروی کرو، جس چیز کو حلال کيا گیا اس كو حلال اور حرام کو حرام مانو ، اس کے حکم کی تعمیل کرو اور اس کی ممانعت سے بچتے رہو۔ (الجامع لأحكام القرآن:7/161) .

پہلى بات:
کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی رسول بھیجے اور اس پر وحی نازل فرمائے اور اس رسول کی اتباع کا حکم بھی دے۔ جيسا كہ فرمايا: 

مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ( سورة النساء:80 )

ترجمہ:  جو رسول کی فرمانبرداری کرے تو بے شک اس نے اللہ کی فرماںبرداری کی اور جس نے منہ موڑا تو ہم نے تجھے ان پر کوئی نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔

    وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ( سورة الحشر:7 )

 ترجمہ:  اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ۔

 اور پھر اسی رسول کو اپنا مدِ مقابل بتائے اور اس کی اتباع سے ڈرائے؟! یہ بات تو سراسر عدل و حکمت کے منافی ہے جو کہ اللہ رب العالمین کے حق میں محال ہے۔

دوسرى بات:
دوسری آیت کے پسِ منظر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آیت ان کے بارے میں ہے جن لوگوں نے اسلام کے بدلے کفر کو چنا اور اللہ کی نشانیوں کو جھٹلایا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: 

وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ  وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ  أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ  أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ وَأَنْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ ( سورة الاعراف:182-185 )

ترجمہ: اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہم ضرور انھیں آہستہ آہستہ کھینچ کر لے جائیں گے جہاں سے وہ نہیں جانتے۔ اور میں انھیں مہلت دوں گا بے شک میری خفیہ تدبیر بہت مضبوط ہے۔ اور کیا انھوں نے غور نہیں کیا کہ ان کے ساتھی میں جنون کی کون سی چیز ہے؟ وہ تو ایک کھلم کھلا ڈرانے والے کے سوا کچھ نہیں۔ اور کیا انھوں نے نگاہ نہیں کی آسمانوں اور زمین کی عظیم الشان سلطنت میں اور کسی بھی ایسی چیز میں جو اللہ نے پیدا کی ہے اور اس بات میں کہ شاید ان کا مقررہ وقت واقعی بہت قریب آ چکا ہو پھر اس کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے۔

تیسرى بات:
مذکورہ دونوں آیات سورۃ الاعراف کی ہیں جو کہ مکی سورت ہے اور مکی سورتوں کے موضوعات اور خصوصیات میں ایک موضوع منکرینِ قرآن کو قرآن کی تصدیق اور اس پر عمل کی دعوت دینا ہے جو کہ آیات کی تفسیر سے روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ چنانچہ ان آيات سے سنت پر عمل کی ممانعت سمجھنا کسی بھی صورت صحیح نہیں۔

چوتھى بات:
مذکورہ سورۃ الاعراف میں ہی اللہ تعالی فرماتا ہے:  

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ( سورة الاعراف:157 )

ترجمہ : وہ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں۔ جو امی نبی ہے جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ جو انھیں نیکی کا حکم دیتا اور انھیں برائی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا اور ان پر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان سے ان کا بوجھ اور وہ طوق اتارتا ہے جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔ سو وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے اور اسے قوت دی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

تو ايسا كيسے ہو سكتا ہے كہ ايک طرف الله رب العزت ان صحابہ كرام كى تعريف فرمائے اور انہیں كامياب و كامران قرار دے اور ان كى خاص صفت يہ ذكر فرمائے كہ يہ نبى اكرم ﷺ كى اتباع كرتے ہیں اور پھر ان كے اس قابلِ تعريف عمل كى مذمت بھی كرے!

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے