
رسول اللہﷺ کی احادیث صرف اپنے زمانے تک محدود ہیں!
وضاحتِ شبہ:
مخالفين کا دعویٰ ہے کہ سنت رسول ﷺ ايسى باتوں پر مشتمل ہے جو ہر زمانے كے ليے قابل عمل نہیں، کیونکہ يہ وہ احکام ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے اس وقت کے حالات کے مطابق جاری کیے جو صرف اس زمانے کے مطابق تھے ۔
جوابِ شبہ
پہلى بات:
سنت وحی ہے جیسا کہ سابقہ شبہ کے جواب میں ثابت ہو چکا ہے تو اس طرح تو یہ بات قرآن مجيد کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کیونکہ قرآن مجيد میں بھی بہت سارے احکامات وقت اور جگہ کے اسباب کے تحت نازل ہوئے ہیں، تو کیا وہ احکامات بھی اس کے نزول کے وقت کے ساتھ خاص کر دیے جائیں گے؟۔
دوسرى بات:
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا عام حکم دیا ہے کسی زمانے یا جگہ كو خاص كيے بغير،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُم….. ( سورہ نساء:59 )
ترجمہ: اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول اللہ ﷺ کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ….. ( سورہ حشر:7 )
ترجمہ: اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ۔
تو بعد میں آنے والوں کے لیے آپ ﷺ کی اطاعت کی صورت کیا ہوسکتی ہے سوائے آپ کی سنت پر عمل پیرا ہونے کے۔
تيسرى بات:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ( سورہ نور:56 )
ترجمہ: نماز کی پابندی کرو زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی فرماں برداری میں لگے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اس آیت کریمہ میں تین احکامات کا ذکر ہے جن میں سے ایک اطاعت رسول ﷺ بھی ہے تو کیا باقی دو احکامات بھی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے خاص تھے کیونکہ یہ کہنا کہ سنت کی پیروی اس زمانے سے خاص تھی اس سے یہ لازم آئے گا کہ باقی دو احکامات بھی اسی زمانے کے ساتھ خاص تھے جس کا کوئی قائل نہیں۔
چوتھى بات:
مذکورہ دعوی مان لینے سے قرآن کریم کی وہ تمام آیات جن میں اطاعت رسول ﷺ کا حكم ہے وہ سب کے سب بے معنی اور بے مقصد ہو جائیں گی، كيونكہ قرآن مجيد كو جب "هدى للناس” کہا گیا اور آخرى نبى پر نازل ہونے والى يہ آخرى كتاب ہے تو اس كا مقام تو يہ ہے کہ يہ ہر زمانہ اور ہر طرح كے لوگوں كے لیے باعث ہدايت ہے۔
پانچوىں بات:
مذکورہ دعوے سے آپ ﷺ کی ختم نبوت پر بھی حرف آتاہے کیونکہ اگر آپ کی پہنچائی ہوئی شریعت آپ کے زمانے کے ساتھ خاص تھی تو بعد میں آنے والوں کی رہنمائی کا انتظام کیسے ہوتا اور اس طرح تو بعد والے آپ کی نبوت ورسالت کی راہنمائی سے محروم رہ گئے جو کہ ا لله کے رسول كى بعثت كے ذريعہ اتمام حجت کے منافی ہے۔
رب تعالى كاارشاد ہے :
رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ( النساء 165 )
ترجمہ: (ہم نے) ایسے رسول (بهيجے) جو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے، تاکہ لوگوں کے پاس رسولوں کے بعد اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہ جائے۔