صحيحين (بخارى ومسلم) كی احاديث كی صحت كے تعلق سے امت کے اجماع کو مشکوک بنانا

صحيحين (بخارى ومسلم) كی احاديث كی صحت كے تعلق سے امت  کے اجماع کو مشکوک بنانا

وضاحتِ شبہ:
صحیح بخارى اور صحیح مسلم كی احاديث کے بارے میں علمائےامت کا اجماع ہے کہ ان میں موجود تمام احادیث صحیح ہیں لیکن بعض نے اپنی کم علمی کی بنیاد پراس اجماع پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے امت کو ان دو كتابوں کے مرتبہ ومقام كے بارے ميں شکوک وشبہات میں مبتلا کرنے  کى مذموم کوشش کی ہے!۔
جواب شبہ

 

پہلی بات:
صحیحین (یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم) احاديث نبوى كى صحيح ترين اور معتبر كتابيں ہیں اور اس بات پر تمام امت متفق ہے اوران میں موجود احادیث کی صحت کے بارے میں اجماع نقل کرنے والے علماء و محدثین اور حفاظ کافی سارے ہیں ہر طبقے نے ایک دوسرے سے نسل در نسل اس بارے میں اجماع نقل کیا ہے ۔
جيسا كہ حافظ ابن حجر رحمہ الله ابو اسحاق اسفرائینی رحمہ الله سے نقل کرتے ہیں:

اہل فن(محدثين)كا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیحین میں موجود احادیث الله كے نبی ﷺ سے یقینی طور پر ثابت ہیں۔

دوسری بات:  
ہر فن میں اسی( فن) سے منسلک لوگوں کی بات معتبر ہوتی ہے جیسے کسی طبیب کی رائےشعبہ تعمیرات میں یا کسی انجینئرکی رائےعلاج ومعالجہ میں معتبرنہیں توویسے ہی اجماع صحیحین( کی صحت کےبارے) میں بھی صرف اور صرف محدثین کی بات ہی قابل قبول ہوگی جو کہ بلند پایہ اور چوٹی کے اہل فن ہیں اور اسی طرح مخالفت بھی انہی کی شمار ہوگی اور کسی اور کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائےگا جبکہ محدثین کااجماع ثابت ہے اور ان میں سے کسی سے کوئی مخالفت نہیں ملتی ۔

تیسری بات:
رہا سوال تمام علماء کا ایک جگہ جمع ہو کر اس بات(صحيحين كى احاديث كى صحت) پر اتفاق کا كہ يہ كب اور كہاں ہوا تو تمام ادوار کے محققین اور اہل فن کا اس بات کا اقرار کرنا کہ صحیحین کی احادیث صحیح ہیں یہ اقرارہی کافی ہے اوران سب کےایک جگہ جمع ہونے سے مستغنی کر دیتا ہے۔

چوتھی بات:
جمہور علماء کا یہ موقف ہے کہ صحیحین کی احادیث سے قطعی (يقينى)علم حاصل ہوتا ہے ،اوراس یقین کی وجہ صحيحين كى وه خصوصيات ہیں جو انہيں دوسری کتابوں سے ممتاز کرتی ہيں جن میں ان كے مؤلفين كى قدر ومنزلت ،ان کا اپنے فن میں رسوخ اور ان کی کڑى شرائط وغيره شامل ہیں ،جبکہ ان احادیث کو ظنى سمجھنے والوں کے دلائل انتہائی کمزور ہیں۔

پانچویں بات:
امت کا صحیحين کی احادیث کوشرف قبولیت بخشنااور ان کی احادیث کے صحیح ہونے پر اتفاق تواتر(کثرت اسانید) سے زياده قوی ہے۔
امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جس بات پر امت کا اجماع ہو جائے وہ بات سند سے(ثابت شدہ بات) زیادہ قوی ہے۔(حلیۃ الأولیاء:3/314)

چھٹی بات:
بعض علماء کا صحیحین کی کچھ احادیث پرنقد صحیحین کی احاديث كى صحت پر اجماع  ہونے كو ختم نہیں كرتا کیونکہ وہ نقد درحقيقت حدیث کی قبوليت اور عدم قبوليت پرنہیں ہے بلکہ اكثر اعتراضات اس نوعيت كے ہیں جن ميں سند وغيره كے بعض امور پر تنبيہات كى گئی ہیں، اور ان اعتراضات يا تنبيہات كا حديث كے علماء نے بهرپور جواب بھی ديا ہے جيسے حافظ ابن حجر العسقلانى نے اپنی كتاب (هدى الساری مقدمہ فتح البارى) ميں ان اعتراضات كا تفصيلى جواب ديا ہے! ۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے