سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹ

وضاحتِ شبہ:
حدیث میں ہے کہ سیدنا  ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے، کوئی الله تعالى كا نبی جھوٹ نہیں بول سکتا لہذا یہ حدیث قابل قبول نہیں  نیز یہ حدیث قرآن مجيد کے بھی خلاف ہے کیونکہ قرآن میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام سچے نبی تھے۔ (مریم : 41)
جوابِ شبہ

 

پہلی بات :
یہ حدیث نہ تو صرف كسى ايک صحابى نے بيان كى ہے اور نہ ہی اس كو كسى ايک محدث نے اپنى كتاب ميں ذكر كيا بلكہ یہ حدیث کی متعدد کتابوں میں موجود ہے ۔ مثلاً  
صحیح بخاری حدیث نمبر: 6584 ، 6583 ، 4812 ، 2520 ، 2131 ۔
صحیح مسلم : 4497  ، سنن ابی داود  : 1929 ، جامع ترمذی : 3237 ، صحیح ابن حبان : 5830 ، السنن الکبری للنسائی : 7141، 7142 ، 7143 ، السنن الکبیر للبیھقی : 19148 ، 14166 ، 14167 ۔ مسند ابی یعلی : 5904  

دوسری بات :
دراصل حدیث میں موجود لفظ‌ ‘کذب‘  سے اعتراض پیدا ہوا ہے اس لیے ضروری ہے کہ  یہ ديكھا جائے کہ عربی زبان میں یہ لفظ کن معانی میں استعمال ہوا ہے ۔
در حقيقت لفظ "كذب” کےعربى میں متعدد معانی ہیں مثلا:
1۔ ’’ ترغیب دلانا ‘‘ جیسا کہ عربی میں کہا جاتا ہے ’’كذبته نفسه‘‘ اس کا معنی ہے:‌ ’’اس کے دل نے اسے ترغیب دلائی۔‘‘ لسان العرب (1/711)
2۔ دوسرا معنی ’’ وجوب ‘‘ کا ہے، جیسا کہ  لغت کے  مشہور امام جوہری اور فراء نے اس معنی کو ذکر کیا۔  (النھایۃ فی غریب الحديث لابن الأثیر 282/4)
3۔  تیسرا معنی ’’  لزوم ‘‘  كے معنى ميں ہے۔ جیسا کہ ’’کذب علیکم الحج و العمرۃ ‘‘  تم پر حج اور عمرہ لازم ہو گیا ہے۔‘‘ [غريب الحديث لأبي عبيد (5/347)، والصحاح (1/211)، والنھایۃ فی غریب الحديث لابن الأثیر 282/4]
4۔ چوتھا معنى ’’ غلطی‘‘ يا  ’’خطأ ‘‘ کے معنی میں‌ ہے۔ چنانچہ  حدیث‌ میں‌ ہے:‌ ’’كذب أبو محمد‘‘ (ابو داؤد: رقم: 425)  یعنی: ’’ ابو محمد نے غلطی کی۔‘‘   
ذو الرمہ شاعر نے کہا: ’’ ما في سمعه كذب‘‘ یعنی: ’’ اس کے سماع میں غلطی نہیں۔‘‘ [النھایۃ: 282/4] پھر بذات خود  خطا بھی کئی معنی میں مستعمل ہوا ہے۔
5۔ پانچواں معنى: ’’اجتہادی غلطی‘‘ پر بھی استعمال كيا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں نوف بکالی کے متعلق ابن عباس نے فرمایا : ’’کذب عدو اللہ‘‘ یعنی : ’’نوف نے سخت  غلطی کی‘‘.
لغوی طور پر یہ تفصیل جاننے کے لیے ديکھیں:  مفردات القرآن ( 288/2 )، الفائق للزمخشری (250/3)، لسان العرب ( 708/1)، القاموس المحیط (166)، فتح البارى (8/413)، تاج العروس ( 897/1) وديگر.

تیسری بات :
یہ بات معلوم ہونے کے بعد کہ عربی میں لفظ کذب کے معانی میں بڑی وسعت ہے ۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عربی زبان میں کذب توریہ یا تعریض کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔تعریض یا  توریہ   سے مراد يہ ہے كہ بات کرنے والا ایسی بات کرے جو حقیقت پر مبنی ہو لیکن وہ حقیقت مخاطب سے مخفی ہو ۔ چنانچہ امام راغب لکھتے ہیں :

والتَّعْرِيضُ: كلامٌ له وجهان من صدق وكذب، أو ظاهر وباطن  ( مفردات القرآن:2 /85 )

ترجمہ: تعریض ایسی گفتگو ہوتی ہے  جس کے دو زاويے ہوتے ہیں، ایک پہلو کو دیکھتے ہوئے اسے سچ کہا جائے اور دوسرے پہلو کو دیکھتے ہوئے اسے کذب کہا جائے.

لہذا اس حدیث میں کذب توریہ کے معنی میں ہی ہے  ، حافظ‌ ابن حجر نے فرمایا:

وَأَمَّا إِطْلَاقُهُ الْكَذِبَ عَلَى الْأُمُورِ الثَّلَاثَةِ فَلِكَوْنِهِ قَالَ قَوْلًا يَعْتَقِدُهُ السَّامِعُ كَذِبًا لَكِنَّهُ إِذَا حُقِّقَ لَمْ يَكُنْ كَذِبًا لِأَنَّهُ مِنْ بَابِ الْمَعَارِيضِ الْمُحْتَمِلَةِ لِلْأَمْرَيْنِ فَلَيْسَ بِكَذِبٍ مَحْضٍ    ( فتح الباری:6/391 )

ترجمہ: مذکورہ تین واقعات ’’کذب ‘‘ کا اطلاق اس لیے ہے کہ سننے والا اسے ظاہر کے خلاف ہونے کی وجہ سے جھوٹ سمجھے گا البتہ حقیقت واضح ہوجائے تو جھوٹ نہ رہے کیونکہ یہ تعریض کے باب سے ہے جس میں دو  پہلوؤں کا احتمال ہوتا ہے ، محض کذب نہیں ہوتا.

ابن عقیل فرماتے ہیں :
"عقلی طور پر کذب کے ظاہری مفہوم کا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت پر اطلاق صحیح نہیں کیونکہ عقلاً یہ بات معلوم ہے کہ رسول جھوٹ نہیں بول سکتا ۔ اس حدیث میں اس کا اطلاق سامع کا لحاظ کرتے ہوئے بولا گیا ہے حقیقتاً ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے جھوٹ صادر نہیں ہوئے  اور ان کے اعلیٰ مقام کے لحاظ اس شدت خوف کے موقع پر کی گئی تعریض پر یہ لفظ بول دیا گیا وگرنہ ایسی صورتوں میں تو شرعاً جھوٹ بولنا  بھی جائز ہے۔ بلکہ کبھی کبھی واجب بھی ہوجاتا ہے جب دو نقصان والے امور  جمع ہوجائیں تو جس میں نقصان کم ہو اسے اختیار کیا جاسکتا ہے”.  (فتح الباری  )

چوتھی  بات :
  اگر یہ مضمون احادیث میں موجود ہونے کی وجہ سے احادیث قابل ِطعن ہیں تو یہ مضمون تو قرآن کریم میں بھی موجود ہے۔ مثلاً ان تین میں سے دو واقعات قرآن کریم میں موجود ہیں ، بت شکنی کا واقعہ سورہ الأنبیاء آیت 52 سے لے کر 66 میں بیان ہوا۔ جبکہ دوسرا واقعہ جو ابراہیم علیہ السلام کی بیماری سے متعلق ہے وہ سورہ صافات کی آیت نمبر 89 میں موجود ہے۔ البتہ تیسرا واقعہ بیوی کو بہن کہنے کا قرآن كريم میں موجود نہیں ۔ اور اس کی وضاحت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سیدہ سارہ سے خود بیان فرما دی کہ اس سے دینی اخوت مراد ہے۔  

پانچویں بات :
یہ حدیث قرآن کے مخالف نہیں بلکہ عین قرآن کے مطابق ہے كيونكہ قرآن کریم نے ابراہیم علیہ السلام کی صداقت کو بیان کیا ہے ۔ اور دو واقعات  ایسے بیان کیے ہیں جو بظاہر کذب ہیں لیکن حقیقتاً وہ توریہ اور تعریض ہیں جیسا کہ اس پر بات  گزر چکی۔ تو جب قرآن مجيد میں ان واقعات کے ذکر سے سیدنا ابراہیم  علیہ السلام کی صداقت متاثر نہیں ہوتی تو حدیث میں ذکر سے کیونکر ہوسکتی ہے ؟ پھر اس پر مستزاد یہ کہ حدیث میں پہلے ’’لم یکذب ‘‘ کہہ کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے جھوٹ بولنے کی نفی کی گئی اور تین مقامات  استثنائی طور پر پیش بھی کیے تو وہ:
أ- تعریض کے باب سے تھے نہ کہ کذب بیانی کے باب سے.
ب- مجبوری کی صورت میں تھے نہ کہ خوشی سے.
ج- اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے تھے نہ کہ ذاتی مفادات کے  لیے۔

اس تفصیل سے قرآنی بیان کہ ابراہیم علیہ السلام سچے تھے مزید نکھر کر سامنے آجاتا ہے نہ کہ حدیث اس کے مخالف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  سلف صالحین کے دور میں انہیں یہ حدیث بالکل بھی  نہ کھٹکی.

چھٹی بات :
ابن عقیل فرماتے ہیں :

وَأَمَّا تَسْمِيَتُهُ إِيَّاهَا كَذَبَاتٍ فَلَا يُرِيدُ أَنَّهَا تُذَمُّ فَإِنَّ الْكَذِبَ وَإِنْ كَانَ قَبِيحًا مُخِلًّا لَكِنَّهُ قَدْ يَحْسُنُ فِي مَوَاضِعَ وَهَذَا مِنْهَا    ( فتح الباری:6/392 )

ترجمہ: یعنی یہاں ان پر جھوٹ کا لفظ اس لیے بولا گیا کہ  جھوٹ بولنا قبیح امر ہے لیکن بسا اوقات جھوٹ بولنا مستحسن ہوتا ہے اور یہ انہی احوال  میں سے تھے.

ان گزارشات سے معلوم ہوا کہ کذب کو تعریض پر محمول کرنا ایک بالکل صحیح اور معقول توجیہ ہے، اور اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عصمت پر کوئی زد نہیں پڑتی ۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے