شادی شدہ زانی کے لیےرجم کی سزا (سنگ سارى ’’پتھراؤ‘‘) قرآن کریم میں موجود نہیں!

وضاحتِ شبہ:
شادی شدہ زانی کے لیےرجم کی سزا (حد رجم) قرآن کریم میں موجود نہیں، اور رسول اللہ ﷺ کا اپنے زمانے میں بعض مجرموں کے لیے رجم کا حکم دینا چند دیگر وجوہات کی بنا پر تھا: جيسے: ) اوباشی، قحبہ گری ’’جو کہ فسادفی الارض‘‘ کے زمرے میں آتی ہے)نہ کہ زنا کی سزا کے طور پر، اور زنا کی سزا وہی ہے جو سورہ نور میں ذکر ہےجوکہ سو کوڑے ہیں جس میں شادی شدہ یا غیر شادی شدہ کی کوئی تفریق نہیں، اللہ تعالی فرماتا ہے:
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ….. ( نور:2 )
ترجمہ: جو زنا کرنے والی عورت ہے اور جو زنا کرنے والا مرد ہے، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔
جواب شبہ

 

پہلی بات:
 شادی شدہ زانی کے لیےحد رجم کا سنت سے ثابت ہوناہی اسکے ثبوت کے لیے کافی ہےکیونکہ سنت وحی الہی ہےاور مستقل تشریع کی حیثیت رکھتی ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا    ( الحشر:7 )

ترجمہ: اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ۔

 شریعت اسلامیہ کے کئی احکامات ایسے ہیں جن کی دلیل صرف سنت نبوی میں ہے،مثال كے طور پر: دادى​​ /نانى كا پوتے/ نواسے کا وارث ہونا، عورت اور اسکی خالہ یا پھوپھی کو ایک نکاح میں جمع کرنے کی حرمت، بعض جانوروں كى حلت اور حرمت ۔

ابن قدامہ فرماتے ہيں: "رجم كى سزا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل سے تقريبا تواتر كے ساتھ وارد ہے، اور آپ كے صحابہ كا اس پر اجماع (مكمل اتفاق) ہے”. المغنى (9/39).

دوسری بات:
 صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہےکے رجم کی حد قرآن مجید میں موجود تھی اور پھر اس آیت کے الفاظ منسوخ ہوگئے اور حکم برقرار رہا۔نسخ کی یہ منفرد نوعیت چونکہ بعض لوگوں کے لیے باعث اشکال ہوسکتی تھی اس لیے بعض صحابہ نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ مستقبل میں لوگ اس حد کا انکار کر بیٹھیں گے اور افسوس ايسا ہی ہوا!

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے منبر پر بیٹھے تھے انہوں نے کہا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی، کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود (اپنے زمانہ میں) رجم کروایا۔ پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یوں ہی آگے بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ نہ دعویٰ کر بیٹھے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ یقیناً رجم کا حکم کتاب اللہ سے اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی ہونے کے بعد زنا کیا ہو۔ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بشرطیکہ گواہی مکمل ہو جائے یا حمل ظاہر ہو یا وہ خود اقرار کر لے۔
(صحیح بخاری:6830، صحیح مسلم:1691)

تیسری بات:
 شادی شدہ زانی کے لیے سنگسارى كى سزا کوئی اجنبی حکم نہیں بلکہ یہ شریعت محمدیہ سےقبل سابقہ شریعتوں میں موجود تھی جسکا ذکر قرآن اور صحیح احادیث میں ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ…  ( المائدہ:41 )

حدیث ملاحظہ ہو:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ یہودی رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زناکاری کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تورات میں رجم کے متعلق کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم انہیں رسوا کرتے ہیں اور کوڑے لگاتے ہیں۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ تم جھوٹے ہو اس میں رجم کا حکم موجود ہے۔ چنانچہ وہ تورات لائے اور کھولا۔ لیکن ان کے ایک شخص نے اپنا ہاتھ آیت رجم پر رکھ دیا اور اس سے پہلے اور بعد کا حصہ پڑھ دیا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو اس کے نیچے رجم کی آیت موجود تھی۔ پھر انہوں نے کہا: اے محمد! آپ نے سچ فرمایا کہ اس میں رجم کی آیت موجود ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور دونوں رجم کئے گئے۔ میں نے دیکھا کہ مرد عورت کو پتھروں سے بچانے کی کوشش میں اس پر جھکا رہا تھا۔

آیت نمبر 41 سے 44میں اسکی طرف اشارہ ہے جیسا کے مفسرین نے بیان کیا ہے دیکھیے :تفسیر ابن کثیر سورہ المائدہ 41-44

 چوتھی بات:
 حد رجم اﷲ تعالى کا حکم ہے کیونکہ الله تبارك وتعالیٰ نے تو واضح الفاظ میں اپنے پیغمبر کے بارے میں فرمایا ہے:

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ  ( الحاقۃ: 44,46 )

ترجمہ : اور اگر وہ ہم پر کوئی بات بنا کر لگا دیتا، تو یقیناً ہم اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑتے،  پھر یقیناً ہم اس کی جان کی رگ کاٹ دیتے۔

اس آیت میں اس بات کی وضاحت ہے کہ آپ  ﷺنے اپنی طرف سے کوئی بات بنا کر اﷲ تعالیٰ کے ذمے نہیں لگائی۔

جبکہ آپﷺنے واضح الفاظ میں فرمایا کہ یہ سزا وہ اپنی طرف سے نہیں، بلکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم پر دے رہے ہیں  :

خُذُوْا عَنِّي، خُذُوْا عَنِّيْ، خُذُوْا عَنِّيْ، قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا    ( صحیح مسلم:1690 )

ترجمہ : مجھ سے لے لو، مجھ سے لے لو، مجھ سے لے لو، اﷲ نے ان (زانی عورتوں) کے لیے راستہ بنا دیا ہے۔ یعنی مستقل سزا مقرر کر دی ہے۔

اور بھی بعض مواقع پر آپ نے شادی شدہ زانیوں کے لیے حد رجم بیان فرمائی اور اسے ’’کتاب اﷲ ‘‘ کا فیصلہ قرار دیا جیسے کہ حدیث میں ہے:

وَالَّذِي نَفْسِي بيَدِهِ، لأَقْضِيَنَّ بيْنَكُما بكِتَابِ اللهِ…    ( صحیح مسلم:1696 )

ترجمہ :اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہےمیں تم دونوں کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کروں گا۔

پانچویں بات:
بنا کسی دلیل کے یہ کہنا کہ رسول اللہ ﷺ کا اپنے زمانے میں بعض مجرموں کے رجم کا حکم دینا چند دیگر وجوہات کی بنا پر تھا ناقابل قبول ہے، اوراصحاب رسول ﷺ کےبارے انتہائی ہتک آمیز رویہ ہے! جبکہ احادیث میں ایسی کوئی وضاحت یا کوئی اشارہ نہیں ہےبلکہ حدیث میں اگر کوئی تفریق کی گئی ہے تو وہ صرف اور صرف کنوارے اور شادی شدہ کی اوردونوں کی الگ الگ سزائیں بیان کی گئی ہیں، یعنی دو قسم کے مجرموں کے لیے ایک دوسرے سے مختلف دو سزائیں تجویز کی گئی ہیں ۔

حدیث ملاحظہ ہو:
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھ سے سیکھ لو، مجھ سے سیکھ لو، مجھ سے سیکھ لو (جس طرح اللہ نے فرمایا تھا:  "یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ نکالے۔ "(النساء: 15)  اللہ نے ان کے لیے راہ نکالی ہے، کنوارا، کنواری سے (زنا کرے) تو (ہر ایک کے لیے) سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور شادی شدہ سے زنا کرے تو (ہر ایک کے لیے) سو کوڑے اور رجم ہے۔

چھٹی بات:
شادى شده اور كنوارے زانى كى سزا ميں تفريق قرين عقل کے مطابق ہے، ذرا غور كريں كہ ايک وه شخص جس نے حلال رشتہ كے ذريعہ اپنی زوجہ سے جائز تعلق قائم كر ليا ہو، اور دوسرا وه جس كو يہ نعمت ميسر نہ آئی ہو، كيا دونوں كے گناه كى سنگينى ايک طرح كى ہو سكتى ہے؟  يقينا شادى شدہ شخص سخت سزا كا مستحق ہے۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے