صرف قرآن مجيد ہی مكمل دين کى وضاحت كے ليے كافى ہے
وضاحتِ شبہ:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: }ما فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ } [سورة الأنعام، الآية: 38].
ترجمہ: {ہم نے کتاب میں کسی چیز کو نظرانداز نہیں کیا} [سورۃ الانعام، آیت: 38]۔
اور فرماتا ہے: } وَنَزَّلْنَا عَلَيْك الْكِتَاب تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْء {[سورة النحل، الآية: 89].
ترجمہ: {اور ہم نے آپ پر ہر چیز کی وضاحت کرنے والی کتاب نازل کی ہے} [سورۃ النحل، آیت: 89]۔
ان آيات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں دین کے تمام معاملات اور احکام موجود ہیں، اور كتاب نے ان كو مکمل طور پر واضح کیا ہے، تاکہ کسی اور چیز کی ضرورت نہ رہے ، چاہے سنت ہو يا كچھ اور، اور اگر ايسا نا ہوتویہ كتاب ہر چیز کی وضاحت نہیں سمجھی جائے گی۔
جوابِ شبہ
پہلی آیت میں کتاب سے مراد قرآن کریم نہیں بلکہ اس سے مراد لوح محفوظ ہے ، جو مخلوقات کے تمام احوال پر مشتمل ہے، کوئی چیز ایسی نہیں جس کے بیان کی اس میں کمی رہ گئی ہو۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "قلم خشک ہو چکا ہے اس پر جو تم کرنے والے ہو”۔(صحیح بخاری: 6596) اورجیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے:
ما تركنا شيئًا إلا قد كتبناه في أم الكتاب
ترجمہ: ہم نے نہیں کچھ چھوڑا مگر اس کو لوح محفوظ میں قلم بند کردیا۔
اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہاں کتاب سے مراد قرآن کریم ہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں کتاب سے مراد قرآن ہے تو پھر ان آیات کو ان کے ظاہری معنی پر محمول نہیں کیا جاسکتا ورنہ یہ بات خلاف واقع ہوگی کیونکہ قرآن میں دنیا کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا بیان اور تفصیل موجود نہیں ہے حتی کہ دینی احکامات کا بیان بھی مجمل ہے مفصل نہیں جیسے نماز ، روزہ وغیرہ جن کی تفصیل احادیث میں ہے ۔ لہذا ’’کل شئ‘‘سے مراد ہر چھوٹی بڑی چیز نہیں بلکہ اصول عبادات اور کلیات شریعت ہیں۔
جہاں تک ’’تبیان‘‘ کا تعلق ہےتو وہ قرآن میں دو قسم کا ہے .
پہلا نصاً بیان : وہ امور جنہیں نص کے ذریعہ بیان کیا گیاہے جیسے کہ اصول دین ، اور نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کی فرضیت،خرید و فروخت اور نکاح کا حلال ہونا، سود اور بدکاری کی ممانعت وغیرہ۔
دوسراا حالۃً بیان: وہ امور جن میں احالہ کیا گیا ہے کسی اور دلیل کی طرف جس کو شریعت نے دلیل وحجت مانا ہےسنت اسی قبیل سے ہے توہر حکم جو سنت میں بیان ہوا ہے قرآن ہی اسکا بیان کرنے والا ہے کیونکہ اسی نے ہماری راہنمائی اس مصدر کی طرف کی۔
نبی ﷺ کا ہر حکم عین کتاب اللہ ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے:
’’….دوسرا اس کا حریف وہ اس سے زیادہ سمجھ دار تھا بولا: بہت اچھا آپ ﷺ اللہ کی کتاب کے موافق حکم کیجیے۔ …….. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا’’میں تم دونوں کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے موافق کروں گا ’’لونڈی اور بکریاں تو واپس لےلے اور تیرے بیٹے کو سو کوڑے لگیں گے اور ایک برس تک جلاوطن رہےگااور اس کی بیوی پر رجم ہے‘‘ (صحیح مسلم: 1697)
حالانکہ کتاب اللہ میں رجم اور جلاوطنی کا ذکر نہیں۔
مذکورہ دعوی میں ان تمام آیات پر عمل كرنا ناممكن ہے جن میں معاملات كو نبی ﷺ کے اوامر کی طرف لوٹایا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ….. ( سورہ حشر:7 )
ترجمہ: تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ۔
مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ … ( سورہ نساء:80 )
ترجمہ: اس رسول (ﷺ) کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی۔
اور اس سے ان کے قرآن پر عمل کے دعوےکی بھی قلعی کھل جاتی ہے !
اس دعوےکے باطل ہونے پر یہ بھی ایک دلیل ہے کہ ان احکامات میں ان کا کیا موقف ہوگا جو احکامات صرف سنت ہی سے ثابت ہیں اور قرآن انکی حلت یا حرمت کے بارے میں خاموش ہے جیسے کہ عورت اور اس کی پھوپھی یا عورت اور اس کی خالہ کو بیک وقت نکاح میں رکھنے کی حرمت اور گدہے اور کوّے کی حرمت!
اور اس دعوے(قرآن ہی مكمل دين کى وضاحت كے ليے كافى ہے) میں نبی ﷺ کے مقام رسالت کی بھی تعطیل ہے کیونکہ رسول اس بات کا حق دار ہے کہ اس کی بات حجت ہو، اور اگر قول رسول سے حجت قائم نہ ہوتی تو فرعون اور اس کی فوج تورات کے نزول سے پہلے غرق نہ کئےجاتےاور یہ بات قرآن سے ثابت ہےجس میں کسی شک و تردد کی بھی گنجائش نہیں۔