
سنت کی پیروی بندے كو شرک کی طرف لے جاتی ہے!
شبہ کی وضاحت:
سنت کی پیروی بندے كو شرک کی طرف لے جاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ( إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ )
ترجمہ: بے شک فیصلہ كا حق صرف اللہ کے لیے ہے
جوابِ شبہ
پہلى بات:
اللہ تعالی اپنی بابرکت ذات کی قسم اٹھا کر فرماتا ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( سورة النساء:65 )
ترجمہ: پس نہیں! تیرے رب کی قسم ہے! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑ جائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں، پوری طرح تسلیم کرنا۔
اور فرماتا ہے:
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ( سورة النور:51 )
ترجمہ: ایمان والوں کی بات، جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں، تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، اس کے سوا نہیں ہوتی کہ وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
پہلی آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس شخص نے ایمان کی مٹھاس چکھی ہی نہیں جو آپ ﷺ کے حکم پر راضی نہیں ہوتا ، اور دوسری آیت میں مومنین کا شیوہ بیان کیا گیا ہے کہ مومن تو درحقیقت ہیں ہی وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولﷺکے حکم کےسامنے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول ﷺ کا حکم ماننا درحقیقت اللہ ہی کی فرمابرداری اور عین توحید ہے نہ کہ اللہ کے حکم میں شراکت داری
اور اگر یہ شرک ہوتا تو اللہ کیسے اس کا حکم فرماتا۔
دوسرى بات:
قرآن مجید میں جن تین مقامات پر مذکورہ آیت ہے ان آیات کے سیاق و سباق سے بخوبی یہ علم ہوتا ہے کہ ان آیات میں تقدیر کے فیصلوں پر راضی ہونے کا حکم دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے ان فیصلوں میں یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں تو آیت کے مذکورہ حصے سے اس دعویٰ پر کسی صورت بھی استدلال ممکن نہیں۔
تيسرى بات:
اللہ تعالی نے بعض جگہ پر اپنی مخلوق میں سے بعض کو حاکم قرار دیا ہے جیسا کہ میاں بیوی کے جھگڑے کے معاملےمیں اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا ( سورة النساء:35 )
ترجمہ: اور اگر ان دونوں کے درمیان مخالفت سے ڈرو تو ایک منصف مرد کے گھر والوں سے اور ایک منصف عورت کے گھر والوں سے مقرر کرو، اگر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔
اور اسی طرح حدود حرم میں شکار کے معاملے میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
…وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ… ( سورة المائدة:95 )
ترجمہ: اور تم میں سے جو اسے جان بوجھ کر قتل کرے تو چوپاؤں میں سے اس کی مثل بدلہ ہے جو اس نے قتل کیا، جس کا فیصلہ تم میں سے دو انصاف والے کریں۔
تو جب قرآن کی موجودگى ميں بعض اشخاص سے فيصلہ كروايا جاسكتا ہے تو مقام رسالت اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ آپ سے فیصلہ کروایا جائے اور اس فیصلے کی ممکنہ صورت آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی سنت پر عمل ہی ہے۔