سنت کی پیروی درحقيقت گمان کی پیروی ہے!
شبہ کی وضاحت:
سنت خبر واحد ہوتى ہے ، اور خبر واحد كا ثبوت ظنى (گمان) ہے ، اور گمان کی پیروی ازروئے قرآن مجيدقابل مذمت ہے! قال الله تعالى: (إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا) (سورة النجم:28).
ترجمہ : يہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اور گمان حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا۔
جواب شبہ
پہلى بات:
آحاد اس حدیث كو كہتےہیں جس کے راوی ايك يا دو ہوں يا اس سےزياده ہوں اور وہ عادل و ضابط بھی ہوں ایسی احادیث کے بارے میں بعض محدثين کی رائے ہے کہ ان احاديث سے واضح دلائل کی بناء پر گمان غالب يا "ظنی علم” حاصل ہوتا ہے مگر ظن كا معنى يهاں شك بالكل نهيں كيونكه لفظ ظن هميشه شك وتردد كے لئےاستعمال نهيں ہوتاجيسا كه قرآن كريم ميں الله تعالٰی کافرمان ہے:
الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ ( سورة البقره:46 )
ترجمه: (اللہ تعالیٰ کا ڈر رکھنے والے وہ لوگ ہیں) جو یقین کیےہوئے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں۔
قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوا اللّٰهِ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرةًباِذْنِ اللّٰهِ ( سورة البقره:249 )
ترجمه: کہا ان لوگوں نے جو لوگ یقین رکھتے ہیں کہ انھیں اللہ کے روبرو حاضر ہونا ہے۔ بسا اوقات چھوٹی سی جماعتیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پالیتی ہیں۔
دوسرى بات:
محدثین نے پہلے روایت اور درایت کے معیار مقرر کیے پھر ان معیارپراحادیث کو جانچا اور پرکھا پھر بعد میں حدیث کے متعلق اپنی رائے ظاہر کی کہ یہ حدیث ہماری تحقیق کے مطابق صحیح ہے یا حسن، يا ضعیف ہے اور ظن کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ یہ روایت و درایت کی جانچ پڑتال کی تمام تر کوششیں بہر حال انسانی ہیں، جن میں سہو وخطاء کا امکان ہےتو يہ بات تو ان كے تقوے اور حديث كےبارے ميں احتياط برتنے كو ظاہر كرتى ہے ۔
تيسرى بات:
محدثین کا یہ کہنا کہ کہ احادیث سے ظنی علم حاصل ہوتا ہے یہ خود بری الذمہ ہونے کے لئے اور معاملہ اللہ کے سپرد کرنے کے لئے ہے جیسا کہ قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا :
… قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ( الأنعام:80 )
ترجمه: اس نے کہا کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ یقیناً اس نے مجھے ہدایت دی ہے، اور میں اس سے نہیں ڈرتا جسے تم اس کے ساتھ شریک بناتے ہو، مگر یہ کہ میرا رب کچھ چاہے، میرے رب نے ہر چیز کا احاطہ علم سے کر رکھا ہے، تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔
ابراهيم عليہ السلام كا يہ كهنا كہ : "مگر یہ کہ میرا رب کچھ چاہے ” يہ معاملہ الله كے سپردكرنے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے!
چوتھى بات:
قرآن میں کہیں بھی یہ بات نہیں ملتى کہ خبر آحاد ظنی ہیں ،بلکہ قرآن کریم میں تو خبر آحاد کو قبول کرنے کا حکم ہے جیسا کہ اللہ تعالی گواہی کے بارے میں فرماتا ہے:
…وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ… ( سورة البقرة:282 )
ترجمہ : اور اپنے مردوں میں سے دو گواہوں کو گواہ بنا لو۔
…وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ… ( سورة الطلاق:2 )
ترجمہ : اور اپنوں میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو اور شہادت اللہ کے لیے قائم کرو۔