
سنت کی تدوین بغیر کسی سابقہ تحریری ریکارڈ کے ہوئی!
شبہ کی وضاحت:
احادیث نبوى بغیر کسی سابقہ تحریری ریکارڈ کے زبانی جمع کی گئی تھیں، تو حديث نبوى کے معاملہ میں صرف کسی کے حافظہ پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے!
شبہ کا جواب
پہلى بات:
یہ کہنا کہ سنت کی تدوین بغیر کسی سابقہ تحریری ریکارڈ کے ہوئی، علم حدیث سے نا واقفیت کی دلیل ہے کیونکہ احادیث لکھی گئی تھیں جیسا کہ شبہ: (حدیث لکھنے سے نبی ﷺ نے ممانعت فرمائى!) میں دلائل سے ثابت کیا جا چکا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے زمانہ سے لیکر ہر عہد میں حدیث کی کتابت ہوتی رہی، پہلے الگ الگ صحائف میں احادیث لکھی گئیں پھر انہیں یکجاں کرکےکتابیں تالیف ہوئیں، نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ہی بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس تحریری شکل میں احادیث موجود تھیں ۔مثلاً :
(1) نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جس میں زکوٰۃ کے احکام درج تھے
(2) صحیفہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
(3) صحیفہ صادقہ از حضرت علی رضی اللہ عنہ
(4)کتاب الفرائض لزید بن ثابت رضی اللہ عنہ
(5)صحیفہ صادقہ از حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم نے اسلام کے آغاز میں جو احاديث لكھیں ڈاکٹر محمد عجاج الخطیب نے ان سب صحابہ كى كتابوں اور صحيفوں كى ایک بڑى تعداد ذکر كى ہے۔ ( ديكھیں: السنة قبل التدوين :ص343-362)
دوسرى بات:
اگر مذکورہ دعوی تسلیم بھی کر لیا جائے تو کیا کسی چیز کا تحریری ریکارڈ نہ ہونا اور صرف حفظ اور یاد ہونا اس چیز کی اہمیت کو ختم کر دیتا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے قائدین کی ہر ہر بات کو ياد کر لیتے ہیں تو کیا نبی اکرم ﷺ کے جانثار صحابہ کرام جنہیں اپنے تو اپنے، گھوڑوں تک کے نسب نامے اور کارنامے بھی ازبر تھے اور وہ عرب جنہیں اپنے حافظے پر ناز تھا، کیا وہ اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کے الفاظ کو یاد نہ رکھ سکے ہوں گے؟ جبکہ انکے سامنے نبی ﷺ کی یہ ترغیب بھی تھی کہ
نضَّر الله امرأً سَمِع مقالتي فوَعَاها وحَفِظها وبَلَّغها ( جامع ترمذی: 2658 )
ترجمہ: اللہ اس شخص کو ترو تازہ رکھےجو میری بات کو سنے اور توجہ سے سنے اور اسے ياد رکھے اور دوسروں تک پہنچائے۔
تيسرى بات:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہایت اہتمام سے نبی اکرم ﷺ کے الفاظ کو ازبر کرنے کی کوشش کرتے اور خود نبی اکرم ﷺ بھی صحابہ سے اس کا اہتمام کروایا کرتے ۔ جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے رات کو سوتے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائى:
اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نفِسي إِلَيكَ، وَفَوَّضتُ أَمري إِلَيْك….وَبِنَبِيِّكَ الذِي أَرسَلتَ
ترجمہ: میں نے چاہا کہ اس دعا کو آپ کے سامنے دہراؤں تاکہ اچھی طرح یاد ہوجائے تو میں نے ساری دعا آپ ﷺ کو ہوبہو سنا دی، صرف (بِنَبِيِّكَ) کی جگہ (رَسُولِكَ) کہہ دیا تو آپ ﷺ نے فرمايا:
وَبِنَبِيِّكَ الذي أَرْسَلْتَ ( صحیح بخاری: 6311 )
ترجمہ: کہ ایسے نہیں بلکہ ویسے پڑھو جیسے میں نے آپ کو سکھایا یعنی (” بِنَبِيِّكَ ").
اگر ” بِنَبِيِّكَ " کی جگہ ” رَسُولِكَ ” کہہ بھی دیا جاتا تو خلاف واقعہ نہ تھا، کیونکہ آپ ﷺ نبی بھی تھے اور رسول بھی ليكن آپ صلى الله عليہ وسلم كے بتلائے ہوے الفاظ كى پابندى كرنا شرعى مقصد ہے ۔
چوتھى بات:
اگر مذکورہ دعوی تسلیم بھی کر لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بات کی حفاظت کا ذریعہ کیا صرف اس کی کتابت ہے؟!
ایسا نہیں ہے بلکہ امانت دار اور باکردار شخص کا حفظ بھی ان ذرائع میں سے ہے، اور امانت داری كى شرط جیسے حفظ میں مطلوب ہے ویسے ہی کتابت حديث میں بھی مطلوب ہے، ورنہ تحریر میں بھی رد وبدل کیا جاسکتا ہے جیسے یہود کے پاس تورات لکھی ہونے کے باوجود بھی ردو بدل سے محفوظ نہ رہ سکی!
پانچويں بات:
نبی ﷺ پر وحی قرآنى حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ سے کتابی شکل میں نہیں آتی تھی بلکہ آپ پر القاء کی صورت میں ہوتی اور آپ اسے یاد کر کے پھر صحابہ کرام کو لکھواتے لہذا اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی بات کا حافظے سے تحریر میں آنا کوئی معیوب بات نہیں ہے! اگراس میں کوئی شائبہ ہوتا تو اللہ تعالی اپنی وحی کی حفاظت کے لیے کوئی اور طریقہ کار منتخب فرماتا۔
چھٹی بات:
دین اسلام چونکہ عرب سے تمام عالم میں پھیلا اور عرب کے یہاں کسی چیز کی حفاظت کا ذریعہ اسے ياد كرلينا ہوتا تھا نا کہ صرف لكھ لينا، تمام مؤرخین کے نزديک عرب کا حافظہ ان کا خاصہ تھا، کتابت کی ضرورت تو تب پیش آئی جب دین اسلام عجم میں پھیلا اور اس بات کا خدشہ ہوا کہ جو چیز ذہن میں محفوظ ہے وہ کہیں ضائع نہ ہو جائے۔