سنت رسولﷺ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نہیں ہے!
وضاحتِ شبہ:
الله تعالى نے قرآن مجيد ميں اس بات كى اطاعت كا حكم ديا ہے جو اس كى طرف سے نازل كرده ہو، اور اسى كا نام وحى الہٰى ہے، جو كہ صرف قرآن مجيد ہے.
جوابِ شبہ
پہلى بات:
ہر مسلمان كو جانا چاہيے كہ سنت نبوى صلى اللہ عليہ وسلم چاہے وه افعال ہوں يا اقوال يہ وحى الہى كى دو قسموں ميں سے دوسرى قسم ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل كى گئى، اور وحى كى پہلی قسم يقينا قرآن كريم ہے. اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ( النجم :3-4 )
ترجمہ: اور وہ ( نبى ) اپنى خواہش سے كوئى بات نہيں كہتے وہ تو صرف وحى ہے جو اتارى جاتى ہے.
اس آيت سے یہ معلوم ہوا كہ آپ ﷺ وحی كے بغير گفتگو نہیں کیاکرتے تھے ، اور ہر ذی شعور کو اس بات کا ادراک ہے کہ آپ ﷺ اپنی عمرِ مبارک میں قرآن مجید کے علاوہ بھی صحابہ کی رہنمائی کیا کرتے تھے،تو قرآن کی رو سے آپ کی وہ گفتگو وحی کے زمرے میں آئے گی۔
امام قرطبى اس آيت كى تفسير ميں فرماتے ہیں كہ اس آيت ميں دليل ہے كےسنت بھی وحی كی طرح الله تعالیٰ كی طرف سےنازل كرده ہے. (الجامع لأحكام القرآن: 17 /85)
چنانچہ سنت بھی وحی ہے اور اس بات پر تمام صحابہ وتابعين اور اہل سنت كا اتفاق ہے اور الله كے رسول اللهﷺ كی طرف سےاس کےپہنچانے والے ہيں۔ ديكھيں: الاحكام لابن حزم ( 1 / 95 ).
دوسرى بات:
الله تعالى فرماتا ہے:
إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ ( النساء: 163 )
ترجمہ: بلاشبہ ہم نے تیری طرف وحی کی، جیسے ہم نے نوح اور اس کے بعد (دوسرے) نبیوں کی طرف وحی کی…
مذكوره آيت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اور ديگر انبياء كی طرف بھی وحی كی گئی تھی جو سب كى سب كتاب كى صورت ميں نا تھی، اور الله تعالى نے نبى ﷺ پر جو وحى اتارى وه قرآن مجيد تھی اور اس كے علاوه بھی، كيونكہ آيت مباركہ ميں ہے كہ ہم نے آپ پر وحى اسى طرح كى گئی جس طرح آپ سے پہلے انبياء پر کی گئی تھی.
اسى طرح الله تعالى نے فرمايا:
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ (الشورى:51)
ترجمہ: اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعے، یا پردے کے پیچھے سے، یا یہ کہ وہ کوئی رسول بھیجے، پھر اپنے حکم کے ساتھ وحی کرے جو چاہے۔
اس آيت ميں وحی كی اقسام كا ذكر ہے جس كی تين اقسام بيان كی گئ ہیں،اور قرآن مجيد كی وحی ان ميں سےصرف ايك قسم پر صادق آتی ہے،باقی ذكر شده دو اقسام اس بات پر دلالت كرتى ہیں كہ قرآن كے علاوه بھى وحی ہے، اور وه وحی سنت ہى ہے۔
تيسرى بات:
الله تعالى فرماتا ہے:
وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ ( النساء:113 )
ترجمہ: اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور تجھے وہ کچھ سکھایا جو تو نہیں جانتا تھا
مذكوره آيت ميں حكمت كو نازل شده بتانا اس بات پردلالت كرتا ہےكہ یہ محض عقل ودانائی كی بات نہیں ہورہی بلکہ اس حكمت سے مراد كچھ اورہے،جوكہ سنت ہے،تو ثابت ہوا کہ سنت بھی قرآن كی طرح نازل شده ہے۔
چوتھى بات:
الله تعالى اپنے نبى ﷺ كےتعلق سےتبليغ دين كے بارےميں فرماتا ہے:
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الاْقَاوِيلِ (44) لاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيـَمِينِ(45)ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (46) فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَد عَنْهُ حَـجِزِينَ ( الحاقة:46 )
ترجمہ: اور اگر وہ ہم پر کوئی بات بنا کر لگا دیتا۔ تو یقینا ًہم اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑتے۔ پھر یقینا ہم اس کی جان کی رگ کاٹ دیتے۔
اس آيت كريمہ سے معلوم ہوا کہ اگر آپ ﷺ وحی سےہٹ كر تعليم ديں جو كہ محال ہےتو الله رب العزت آپ کی پکڑ کرنے پر قادر ہے اور اس كا انجام بھی بتايادیا گیا ہے۔
تو کیا اس سخت وعید کے بعد آپ ﷺ سے ایسی توقع کی جاسکتی ہے کہ آپ اپنے طور پر دین میں کوئی چیز حلال یا حرام کریں گے؟ اسى ليے مسلمانوں كا عقيدہ ہے كہ آپ ﷺ کے تمام اقوال وافعال رضائے الہٰی کے ہی تابع تھے جوکہ وحی الہٰی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
پانچوىں بات:
صحابہ رضوان الله عليهم اجمعين كا آ پ ﷺ كے فرامين پر عمل كرنا اور اس بات پر ان کا كسی قسم كی سزا سےدوچار نہ ہونا بلکہ اس كے برعكس کامیابیوں كا ملنا اور قرآن کاان کی اس پیروی کو قابل تعریف اند از میں بیان کرنااس بات پر دلالت کرتا ہے كہ سنت پر عمل عین الله كی رضا ہے تو اگر سنت وحی نہ تھی تو یہ کیسے ممکن ہوا؟!
چھٹی بات:
وحی صرف قرآن کریم تک محدود نہیں،كيونكہ قرآن كريم كى بيشتر آيات ميں بعض ايسے امورواحكام كا ذكر ہےجن كی طرف قرآن كريم نے اشاره كيا اور وه قرآن ميں مذكورنہیں ،جيسا كہ الله تعالى فرمان ہے :
مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ ( الحشر:5 )
ترجمہ: جو بھی کھجور کا درخت تم نے کاٹا، یا اسے اس کی جڑوں پر کھڑا چھوڑا تو وہ اللہ کی اجازت سے تھا اور تاکہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔
درختوں کے کاٹنے اور جلانے پر یہود اور منافقین نے شور مچایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) درختوں کو کاٹ کر فساد فی الارض کا ارتکاب کر رہے ہیں، جب کہ ان کا دعویٰ اصلاح کا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دلائی کہ تم نے جو بھی درخت کاٹا یا اسے اس کی جڑوں پر قائم رہنے دیا تو یہ سب کچھ اللہ کے اذن سے تھا، یعنی اگرچہ جنگ کے موقع پر عام حکم یہی ہے کہ درخت اور کھیت جلانے اور کاٹنے سے اجتناب کیا جائے، مگر اس موقع پر جو درخت جلائے گئے یا کاٹے گئے یا باقی رہنے دیے گئے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہوا، اس لیے مخالفین کی باتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
كيا قرآن ميں اس اجازت كا ذكر ہے؟اگر نہيں تواس سے يہ پتہ چلتا ہے كہ قرآن كے علاوه بھی وحی ہے جوكہ حديث کی صورت میں ہے۔