
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بوقتِ نکاح عمر کیا تھی؟
وضاحتِ شبہ:
نبی کریم ﷺ نے سیدہ عائشہ سے مکہ میں نكاح كيا جس وقت سیدہ عائشہ کی عمر چھ سال تھی، مدینہ میں ہجرت کے پہلے سال رخصتی ہوئی اس وقت سیدہ عائشہ کی عمر نو سال تھی۔ ( صحیح بخاری: 5134، صحیح مسلم: 1422 )
اس حدیث پر اسنادی، عقلی اور تاریخى لحاظ سے مختلف اعتراضات کیے جاتے ہیں، ان اعتراضات کی حقیقت پیشِ خدمت ہے۔
جوابِ شبہ
1۔ پہلا اعتراض :
اس حدیث پر اسنادی لحاظ سے اعتراض کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اس کی سند میں ہشام بن عروہ نامى راوى ہیں اور وہ آخری عمر میں مختلط ہوگئے تھے (يعنى احاديث كو درستگى سے بيان نہيں كرپاتے تھے ) اس لیے ان کی یہ حدیث ناقابل اعتبار ہے۔
جواب
پہلی بات:
یہ حدیث بخاری و مسلم میں ہے جن كتابوں كى احاديث كو پورى امت كى طرف سے اجماع اور قبول عام حاصل ہے اور یہ بات مسلم ّہے کہ اجماع کبھی غلط موقف پر قائم نہیں ہوتا؛ امت مسلمہ کسی گمراہی پر متفق نہیں ہو سکتی، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر متحد نہیں فرمائے گا) جامع ترمذی (2167)۔
دوسری بات:
امام ذہبی ہشام بن عروہ كہ بارے ميں فرماتے ہیں :
حجة إمام، لكن في الكبر تناقص حفظه، ولم يختلط أبدًا، ولا عبرة بما قاله أبو الحسن بن القطان من أنه وسهيل بن أبي صالح اختلطا، وتغيرا ( میزان الاعتدال:4/301 )
ترجمہ: ہشام بن عروہ معتبر ترين ہیں، امام ہیں ، بڑھاپے میں ان کا حافظہ تھوڑا كمزور ضرور ہوگیا تھا لیکن انہیں کبھی اختلاط نہ ہوا، اس بارے میں ابو الحسن بن القطان کا ان کے اور سھیل بن ابی صالح کے بارے میں مختلط کہنا ناقابل اعتبار ہے۔
لہذا ہشام بن عروہ کے حافظے پر جرح کر کے ان كى حدیث کو رد کرنا غلط ہے۔
تیسری بات:
اس حديث كى مشہور ترین سند ہشام بن عروہ اپنے والد عروہ بن زبیر سے اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں، یہ روایت صحیح ترین روایت ہے؛ کیونکہ عروہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں اس لیے انہیں اپنی خالہ کے بارے میں صحیح ترین معلومات تھیں۔
اس كے علاوه اس حدیث کو اکیلے ہشام بن عروہ نے بیان نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ ان كے والد سے بيان كرنے والوں ميں: ابن شھاب الزہری، ابو حمزہ میمون – جو کہ عروہ کے غلام ہیں – جيسے جلیل القدر محدث بھی شامل ہیں۔ ديکھیں: صحیح مسلم (1422) ۔
اسى طرح اس حديث كو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روايت كرنے والے ان كے بھانجے عروه بن زبير كے علاوه بھی کئ راويان حديث ہيں جن میں أسود بن یزید، قاسم بن عبد الرحمن، قاسم بن محمد بن ابو بکر، عمرۃ بنت عبد الرحمن، اور یحیی بن عبد الرحمن بن حاطب شامل ہیں۔ ديکھیں: صحیح مسلم (1422) سنن ابو داود (4937) تو كيا اتنى تعداد میں راويوں اور حديث كے حافظوں كو ايک ساتھ غلطى لگی اور سہو ہوا ؟!
2۔ دوسرا اعتراض:
اس حدیث پر یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ سیدہ عائشہ اپنی بہن سیدہ اسماء سے دس سال چھوٹی تھیں (الاکمال فی اسماء الرجال للخطیب التبریزی) اور سیدہ اسماء کا انتقال 73ھ میں سو سال کی عمر میں ہوا اس حساب سے ہجرت مدینہ کے وقت سیدہ اسماء کی عمر ستائیس یا اٹھائیس سال بنتی ہے ۔ اور سیدہ عائشہ چونكہ ان سے دس سال چھوٹی تھیں تو ان کی عمر ہجرت کے وقت سترہ یا اٹھارہ سال، اور رخصتی کے وقت انیس یا بیس سال بنتی ہے۔
جواب
پہلی بات:
اس فلسفے کی اساس یہ ہے کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا اپنی بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دس سال بڑی تھیں، یہ بات خطیب تبریزی نے سیدہ اسماء کے ترجمہ میں لکھی، لیکن انہوں نے سیدہ عائشہ کے ترجمہ میں یہ بھی لکھا کہ سیدہ عائشہ کی رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی، نیز رخصتی کے حوالے سے خطیب تبریزی کی بیان کردہ اس بات پر تمام مؤرخین، فقہاء اور علماء اسلام کا اجماع بھی ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ سیدہ اسماء عمر میں سیدہ عائشہ سے دس سال بڑی تھیں غلط ہے۔
دوسری بات:
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے سيدہ اسماء كى عمر كے فرق كے بارے میں "بضع عشر” کے الفاظ استعمال فرمائے۔ (سیر اعلام النبلاء : 2 /288 ) جس کا معنی یہ ہے کہ دس سال اور بضع (کچھ ) سال ۔ بضع کا لفظ تین سے نو کے عدد پر بولا جاتا ہے۔ (لسان العرب: 8/ 15 ) لہذا اس لفظ بضع کے معنی کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ مفہوم نکلا کہ سيده اسماء کم از کم تیرا اور زیادہ سے زیادہ انیس سال بڑی تھیں، اور دیگر قرائن سے مدد لی جائے تو اٹھارہ یا انیس سال کا عدد متعین ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں کوئی اشکال نہیں رہتا۔
3- تيسرا اعتراض:
یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ سیدہ عائشہ دور جاہلیت میں پیدا ہوئیں ۔ (تاریخ طبری : 3/426) جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت ان کی عمر نو سال نہ تھی۔ کیونکہ اسلامی دور کے تیرہ سال تو مکے میں ہی بن جاتے ہیں اور اگر چند سال مثال کے طور پر پانچ سال پہلے بھی ولادت مان لی جائے تو ہجرت کے وقت سیدہ عائشہ کی عمر اٹھارہ ، انیس سال بنتی ہے۔
جواب
پہلی بات:
سیدہ عائشہ کے بارے میں علماء نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ وه دورِ اسلام میں پیدا ہوئیں۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش عہد اسلام میں ہوئی ہے، آپ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے آٹھ سال چھوٹی تھیں، آپ اکثر کہا کرتی تھیں: "جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے میں نے اپنے والدين كو دین اسلام پر ہی دیکھا ہے.” سير أعلام النبلاء (2/139)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش بعثت نبوى ﷺ سے چار یا پانچ سال بعد ہوئی” . الإصابة (8/16)
دوسری بات:
طبری کی اصل عبارت کو سامنے رکھیں تو معنی واضح ہوجاتا ہے۔
وتزوج أيضا في الجاهلية أم رومان۔۔۔۔۔۔ فولدت له عبد الرحمن وعائشة.
فكل هؤلاء الأربعة من أولاده، ولدوا من زوجتيه اللتين سميناهما في الجاهلية ( تاريخ طبرى:2/351 )
ترجمہ: سیدنا ابوبکر نے دور جاہلیت میں ام رومان سے شادی کی۔۔۔۔ اور ان سے عبدالرحمٰن و عائشہ پیدا ہوئے ۔ یہ چاروں اولاد ان کی دو بیویوں سے ہیں جن سے شادی دور جاہلیت میں ہوئی۔
طبری کی عبارت کا مفہوم تو یہ ہے کہ سیدہ عائشہ کی والدہ ام رومان سے شادی دور جاہلیت میں ہوئی، البتہ سیدہ عائشہ کی ولادت بھی دور جاہلیت میں ہوئی اس کی صراحت نہیں ہے اور اس عبارت سے یہ مفہوم نکالنا بھی صحیح نہیں۔
تیسری بات:
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سیدہ عائشہ کی ولادت کے بارے میں دور جاہلیت کا ہی اشارہ کر رہے ہیں۔ تو یہ سوال پھر بھی باقی ہے کہ دور جاہلیت سے ان کی مراد کیا ہے ؟ عین ممکن ہے کہ طبری کی اس عبارت میں دور جاہلیت سے مراد ہجرت سے پہلے کا دور ہو۔ تو کئی ایک اہل علم بعثت نبوی کے آغاز سے دور اسلام کا آغاز شمار کرتے ہیں اور بعض اہل علم ہجرت نبوی سے دور اسلام کا آغاز شمار کرتے ہیں۔ جیساکہ عبداللہ بن زبیر کے بارے میں کہا گیا کہ وہ دور اسلام میں پیدا ہوئے۔لہذا طبری کے اس قول سے مراد ہجرت سے پہلے کا بعثت نبوی کے بعد کا دور مراد ہے۔
چوتھی بات:
یہ مسئلہ سیدہ عائشہ کے اپنے قول سے بھی حل ہوجاتا ہے چنانچہ خود سیدہ عائشہ کا کہنا ہے کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا والدین کو اسلام پر ہی دیکھا۔ (صحیح بخاری: 476 )
خلاصہ كلام جس پر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اہل علم کا اتفاق بھی ذكر کیا ہے، اور یہ بھی کہا ہے کہ اس بارے میں کسی کا اختلاف اب تک نہیں ملا، وہ یہ ہے: "عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ (آپ ﷺ کیساتھ ان کا نکاح 6 سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی 9 سال کی عمر میں ہوئی) اس بارے میں لوگوں کاکوئی اختلاف ہے ہی نہیں، ویسے بھی یہ بات صحیح بخاری و مسلم سمیت دیگر کتب میں بھی مذكور ہے، نیز آپ ﷺ کیساتھ ان کی رخصتی ہجرت کے دوسرے سال ہوئی”. ديکھیں: البدايہ والنهايہ (4 / 327).