
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اجنبیوں کے سامنے غسل کیا
وضاحت شبہ:
حدیث میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجنبی مردوں کے سامنے غسل کیا (صحیح بخاری : 252)جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی عظیم خاتون کا ایسا کرنا ناممکن ہے۔
جواب شبہ
پہلى بات:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنے والے افراد اجنبی نہ تھےبلکہ ان میں سے ایک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی بھانجا تھا کیونکہ ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن کو ام کلثوم بنت ابی بکرنے دودھ پلایا تھا اس لحاظ سے وہ سیدہ عائشہ کے بھانجے ہوئے ۔ (التمهيد لابن عبد البر ج7 ص 61، سير أعلام النبلاء للذهبي ج 4ص288) جبکہ دوسرے آدمی کا سیدہ عائشہ سے تعلق حدیث کے متن میں ہی موجود ہے کہ وہ سیدہ عائشہ کے رضاعی بھائی تھے۔ لہذا اجنبی قرار دینا غلط ہے۔
دوسرى بات:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ غسل پردے کے پیچھےکیا تھا ۔ دورِ حاضر کی طرح چار دیواری پر مشتمل واش روم اس وقت نہیں ہوتے تھے البتہ گھروں میں پردوں کی اوٹ استعمال کرکے غسل وغیرہ کیے جاتے تھے۔ سیدہ عائشہ نے بھی اسی طرح کیا جوکہ معلوم چیز ہے۔ ماسوائے ذہنی خرابی کے کسی معترض کے پاس کوئی صحیح ، صریح دلیل موجود نہیں جو دلالت کرتی ہوکہ سیدہ عائشہ نے اس عام معلوم و متداول طریقے کے برخلاف کیا۔ واضح رہے کہ سیدہ عائشہ کے اس عمل کا مقصد یہ بتانا تھا کہ نبی کریم ﷺ ایک صاع پانی سے غسل کرلیتے تھے اور یہ عملی طور پر ممکن ہے ۔ جب مقصد صرف مقدار بتانا تھا تو یہ پردے میں جاکر ممکن ہے کہ سیدہ عائشہ پانی لے کر پردے میں جائیں اور غسل کرلیں۔