سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کثرت سے معارضت کرنا

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کثرت سے معارضت کرنا


وضاحتِ شبہ:
بعض لوگ سیدہ عائشہ کے حوالےسے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نبی کریم ﷺ اور دیگر سے بہت زیادہ اعتراضات کرتی تھیں۔
جوابِ شبہ

 

پہلی بات:
اس قسم کے اعتراض کا بنیادی مقصد سیدہ عائشہ کی عدالت کو مشکوک بنانا ہے جبکہ یہ اعتراض جن دلائل کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ان کی کوئی حقیقت نہیں ، اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی زوجہ تھیں اور آپ  ﷺ کی متعدد شادیاں تھیں یوں کسی خاتون میں دوسری خاتون  کے تعلق سے  تعلقات میں کمی بیشی کا ہونا عورتوں  کی جبلت سے تعلق رکھنے والا معاملہ ہے ۔ اس بنیاد پر کسی خاتون  کو مورد اعتراض بنانا درست نہ ہوگا۔  

دوسری بات:
اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب  نبی کریم ﷺ کو یہ اختیار دیا گیا کہ کوئی عورت اگر اپنا آپ  نبى کریم ﷺ  کو ہبہ کرے تو اس کا آپ کو اختیار ہے جیساکہ قرآن کریم کی آیت میں مذکور ہے ۔

تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ   ( الاحزاب 50،51 )

ترجمہ: آپ اپنی بیویوں میں جسے چاہیے اپنے آپ سے الگ رکھئےاور جسے چاہیے اپنے پاس جگہ دیجیے.

 اس آیت کے تناظر میں سیدہ عائشہ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں یہ بات  رکھی کہ آپ کا رب تو آپ کی خواہشات پوری کرنے میں جلدی کرتا ہے۔

 اس جملے پر اعتراض کرتے ہوئے بعض لوگ اس کے ذریعے سیدہ عائشہ کی شخصیت کو مطعون کرنا چاہتے ہیں جبکہ  حقیقت یہ ہے کہ سیدہ عائشہ کا یہ کہنا تو نبی کریم ﷺ کی شان بیان کرنے کے لیے تھا  ، یہ اسی طرح ہے کہ جسے قرآن کریم میں یوں بیان کیا گیا ہے :

 قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا   ( البقرۃ :144 )

ترجمہ: (اے نبی  ﷺ  ) بلاشبہ ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھتے رہے ہیں سو ہم  آپ کا رخ اسی قبلے کی طرف پھیر دیتے ہیں  جو آپ کو پسند ہے۔

اسی بات کو سیدہ عائشہ نے ایک خاص موقع پر اپنے انداز میں کہہ دیا  تو یہ  قابل اعتراض نہیں ہے بلکہ سیدہ عائشہ تو آپ کی شان بیان کر رہی ہیں۔

البتہ جنہوں نے ناقدانہ  ارادوں سے ہی احادیث کا مطالعہ کرنا ہو انہیں ہر شے قابل اعتراض  محسوس ہوگی۔

تیسری بات:
اس سلسلے میں ایک اور روایت بیان کی جاتی ہے کہ  سیدہ عائشہ نے ماریہ قبطیہ کے بیٹے کے بارے میں کہا کہ اس کی آپ ﷺ  سے کوئی مشابہت نہیں لگتی ۔ یہ روایت سخت ضعیف  ہے اس میں ایک راوی  ابو معاذ سليمان  بن ارقم الانصاری  ہے جوکہ متروک ہے ۔ اسے ابن حبان نے کتاب المجروحین(1/413) میں ذکر کیا ہے  اور بیان کیا ہے کہ یہ احادیث کو بدلتا ہے اور ثقہ راویوں سے من گھڑت روایات بیان کرتا ہے ۔ امام احمد اور ابن معین نے اس کے بارے میں ’’لیس بشئی‘‘   (نا قابل اعتبار) کہا ہے۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے