سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ شراب کے حرام ہونے کے بعد بھی شراب پیتے تھے (معاذاللہ)

وضاحت شبہ:
حدیث میں ہے کہ سیدنا معاویہ نے شراب کی حرمت کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دسترخوان پر شراب موجود ہوتی تھی۔
جوابِ شبہ

 

بعض جہلاء نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بہتانِ شنیع لگایا کہ وہ اسلام لانے کے بعد بھی شراب پیتے تھے۔ (معاذاللہ ) اس بہتان کو ثابت کرنے کے لیے وہ جس روایت كا سہارا لیتے ہیں ہم اس روایت کی حقیقت آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔
پہلے روایت ترجمہ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں:

حدثنا عبد الله بن بريدة قال:دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى مُعَاوِيَةَ فَأَجْلَسَنَا عَلَى الْفُرُشِ، ثُمَّ أُتِينَا بِالطَّعَامِ فَأَكَلْنَا، ثُمّ أُتِينَا بِالشَّرَابِ فَشَرِبَ مُعَاوِيَةُ، ثُمَّ نَاوَلَ أَبِي، ثُمَّ قَالَ: ” مَا شَرِبْتُهُ مُنْذُ حَرَّمَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، ثُمَّ قَالَ مُعَاوِيَةُ: كُنْتُ أَجْمَلَ شَبَابِ قُرَيْشٍ وَأَجْوَدَهُ ثَغْرًا، وَمَا شَيْءٌ كُنْتُ أَجِدُ لَهُ لَذَّةً كَمَا كُنْتُ أَجِدُهُ وَأَنَا شَابٌّ غَيْرُ اللَّبَنِ، أَوْ إِنْسَانٍ حَسَنِ الْحَدِيثِ يُحَدِّثُنِي [مسند أحمد ط: الرسالة 26/ ۳۸]

محمد على مرزا جہلمی کا ترجمہ پیش خدمت ہے:

سیدنا عبداللہ بن بریدہ تابعی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ میں اور میرے والد سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس ملنے گئے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں فرشی نشست (یعنی قالین ) پر بٹھایا ، پھر کھانا لایا گیا جو ہم نے تناول کیا ، پھر ہمارے سامنے ایک مشروب لایا گیا جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پینے کے بعد (وہ مشروب والا برتن ) میرے والد کو پکڑا دیا تو انہوں (سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ ) نے فرمایا: ’’ جب سے اس مشروب کو رسول اللہ ﷺ نے حرام قرار دیا ہے ، تب سے میں نے کبھی اسے نوش نہیں کیا۔ ‘‘ پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے : ’’ میں قریشی نوجوانوں میں سب سے حسین ترین اور خوبصورت دانتوں والا نوجوان تھا اور جوانی کے ان دنوں میرے لیے دودھ اور اچھے قصہ گو آدمی سے بڑھ کر کوئی چیز لذت آور نہیں ہوتی تھی ‘‘۔
مسند احمد : 23329 (جلد 10، صفحہ 661 ) ، قال الشیخ زبیر علی زئی والشیخ الارناؤط : اسنادہ صحیح]

(واقعہ کربلا کا حقیقی پس منظر : 72 صحیح الاسناد احادیث کی روشنی میں ، نوجوانان اہل سنت اسلام آباد ، اسلام آباد ، 2017ء ص 15)

پہلی بات:
سیدنا معاویہ کی شراب اور شرابی سے نفرت:
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ شراب اور شرابی سے سخت نفرت کرتے تھے بلکہ وہ تو خود شراب کی ممانعت کی روایت بیان کرتے ہیں ، آئیے ملاحظہ فرمائیں :

عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي شَارِبِ الْخَمْرِ:’’ إذا شَرِبُوا الخمر فاجلِدُوهُم، ثم إن شَرِبُوا فاجلدُوهُم، ثم إن شَرِبُوا فاجلِدُوهُم، ثُمَّ إنْ شَرِبُوا فاجلِدُوهُم، ثم إن شَرِبُوا فاقتلُوهُم‘‘. (سنن ابی داؤد : 4482 ، جامع ترمذی : 1444)

ترجمہ: سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ( شرابی ) جب شراب پئیں تو انہیں درے لگاؤ ، پھر اگر پئیں تو درے لگاؤ ، پھر اگر پئیں تو درے لگاؤ پھر اگر پئیں تو قتل کر دو ۔

مذکورہ روایت سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تو ان صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے حرمتِ شراب کو بیان کیا ہے بلکہ اس کی تعزیری سزا کو بیان کیا ہے ۔ اس سے بھی مزید بڑھ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شراب کی تعزیری حد کو بڑھا کر اسی (80) کوڑے کیا تھا ، سیدنا عثمان نے اپنے دور میں 40 بھی لگائے اور 80 بھی۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے 80 کوڑے رکھا۔ (سنن ابوداؤد : 4488، المعجم الکبیر: 1/135، 1003، سنن الدارقطنی 4/195 ، 3320)
معلوم ہوا کہ سیدنا معاویہ تو شراب اور شرابی سے شدید نفرت کرتے تھے بلکہ انہوں نے اسے ختم کرنے کے لیے اس کی سخت سزا کو برقرار رکھا۔

دوسری بات:
قرآن و سنت میں لفظ شراب کا مختلف معانی میں استعمال :
قرآن کریم میں لفظ شراب کا مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے مثلاً :

۱۔ شراب بمعنی ماء حمیم
قرآن کریم میں مختلف مقامات پر شراب سے مراد ماء حمیم ہے ، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَذَرِ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَهُمْ لَعِبًا وَّلَهْوًا وَّغَرَّتْهُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا وَذَ كِّرْ بِهٖٓ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌۢ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِيٌّ وَّلَا شَفِيْعٌ ۚ وَاِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۭاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا كَسَبُوْا ۚ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِيْمٌۢ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَۧ   ( الانعام:70 )

ترجمہ: اور ان لوگوں کو چھوڑیئے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور دنیا کی زندگی نے انہیں فریب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اور انہیں قرآن کے ذریعہ یہ نصیحت کیجئے کہ ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گرفتار ہے۔ اللہ کے سوا نہ اس کا کوئی حمایتی ہوگا اور نہ سفارشی اور وہ کسی بھی چیز سے بدلہ دینا چاہے گا تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہی لوگ ہیں جو اپنے کئے کے بدلہ میں گرفتار ہیں۔ اور جو وہ کفر کرتے رہے ہیں تو اس کے بدلے انہیں پینے کو کھولتا پانی ملے گا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا۔

اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا ۭوَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا اِنَّه يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِيْمٌۢ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ  (یونس : 04)

ترجمہ: تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے، وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ ان لوگوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے جو ایمان لائے اور جو نیک عمل کرتے رہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہوگا۔ یہ اس انکار حق کا بدلہ ہے جو وہ کیا کرتے تھے۔

ان مقامات پر لفظ ’’شراب ‘‘ کا استعمال گرم پانی کے معنی میں ہوا ہے جیسا کہ واضح ہے ۔

۲۔ پاکیزہ شراب
قرآن کریم میں جنت كى شراب کا ذکر ہوا ہے اور اسے پاکیزہ شراب قرار دیا گیا جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ سُـنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ ۡ وَّحُلُّوْٓا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ ۚ وَسَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا   ( الدھر : 21 )

اس پر باریک ریشم اور گاڑھے ریشم کے لباس ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ مشروب پلائے گا۔
اندازہ لگائیں پچھلی شق میں جہنمیوں کے لیے ’’شراب ‘‘ کا تذکرہ ہوا ہے اور مذکورہ شق میں جنتیوں کے لیے ’’شراب ‘‘ کا تذکرہ ہوا ہے ، لیکن دونوں مقامات پر دنیاوی عقل کو متاثر کردینے والی نشہ آور شراب مراد نہیں ہے ۔

۳۔ پینے کا مشروب پانی
ارشا د الہی ہے:

هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ وَّمِنْهُ شَجَـرٌ فِيْهِ تُسِيْمُوْنَ   ( النحل:10 )

ترجمہ: وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا۔ اس پانی کو تم پیتے بھی ہو اور اس سے نباتات اگتی ہے جو تم مویشیوں کو چراتے ہو۔

۴۔شہد کے معنی میں
شہد کی مکھی کے پیٹ سے نکلنے والے شہد کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہے :

ثُمَّ كُلِيْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُكِيْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۭ يَخْرُجُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِيْهِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاسِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ   ( النحل:69 )

ترجمہ: پھر ہر قسم کے پھل سے اس کا رس چوس اور اپنے پروردگار کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی رہ۔ ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کا مشروب (شہد) نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے۔ یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں ۔

علامہ بیضاوی آیت میں مذکور شراب کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

شَرابٌ يعني العسل لأنه مما يشرب  ( تفسیر بیضاوى )

ترجمہ: یہاں شراب سے مراد شہد ہے کیونکہ اسے بھی پیا جاتا ہے۔

معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں ’’ شراب ‘‘ کا لفظ متعدد معانی میں مستعمل ہوا ہے ۔
احادیث میں لفظ ’’شراب ‘‘ کا متعدد معانی میں استعمال :

پہلی حدیث:
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی پسندیدہ ’’شراب ‘‘ ( مشروب ) ٹھنڈی اور میٹھی چیز تھی ۔ (جامع ترمذی : 1895 ) ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کون سا مشروب اطیب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھنڈی اور میٹھی ‘ ‘ (مسند الحمیدی : 259 ، مصنف ابن ابی شیبہ : 24197)
مذکورہ روایت میں شراب سے مراد نبیذ ہے۔

دوسری حدیث:
ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پینے کی چیز میں تین مرتبہ سانس لے کر اسے پیتے۔ (صحیح مسلم : 2028)

تیسری حدیث:
نبی کریم ﷺ نے پینے کی چیز میں پھونکنے سے منع فرمایا۔ (صحیح الجامع الصغیر : 1896 ، سلسلۃ الصحیحۃ : 388)

چوتھی حدیث:
نبی کریم ﷺ نے دیوار سے لٹکے مشکیزے کو دیکھا تو شراب یعنی پانی طلب فرمایا ، صحابہ نے کہا کہ یہ مشکیزہ مردار جانور کی کھال کا بنا ہوا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو رنگ دیا جانا اس کی پاکیزگی ہے ۔ (مسند احمد : 20061)

پانچویں حدیث:
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ میں حالت حیض میں ( کھانا کھاتے ہوئے ) ہڈی پر سے گوشت نوچتی ،پھر رسول اللہ ﷺ کو دیتی ، آپ ( اسے قبول فر لیتے اور ) جہاں سے میں نے کھایا ہوتا اسی جگہ اپنا منہ رکھتے ، اور میں شراب یعنی پانی پیتی پھر آپ ﷺ کو دیتی ، تو جہاں سے میں نے پیا ہوتا آپﷺ وہیں سے پیتے۔ ( سنن ابو داؤد : 259 )
مذکورہ تمام احادیث میں لفظ ’’شراب‘‘ استعمال ہوا ہے ، مگر پانی یا شہد یا دودھ یا نبیذ وغیرہ کے معانی میں ، اور شراب کا اصل معنی بھی پینا ہی ہے ، لہذا ان احادیث میں کہیں بھی شراب بمعنی خمر کی کسی صورت کوئی گنجائش نہیں بنتی ۔
لفظ شراب اہل علم کے کلام میں :
عکرمہ رحمہ اللہ کا قول :

لَا تَشْرَبُوا نَفَسًا وَاحِدًا، فَإِنَّهُ ‌شَرَابُ الشَّيْطَانِ  ( شعب الإیمان )

ترجمہ : تم ایک ہی سانس میں نہ پیا کرو یہ شیطان کا پینا ہے ۔

شعب الایمان میں شراب جبکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں شرب کے لفظ استعمال ہوئے ہیں دونوں ہی مصدر ہیں جس کامعنی پینا ہے ۔
موطا امام مالک میں ہے کہ اسلم مولی عمر جب عبداللہ بن عیاش المخزومی کے پاس گئے اور ان کے پاس نبیذ دیکھی( یہ الفاظ واضح طور پر موجود ہیں ) پھر کہا:

إِنَّ هَذَا ‌الشَّرَابَ يُحِبُّهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ  ( موطا 2610، مصنف ابن ابی شیبہ )

ترجمہ: اس مشروب کوسیدنا عمر رضی اللہ عنہ پسند کرتے تھے ۔

مزید یہ کہ سیدنا عمر نے اسے طیب بھی کہا
مذکورہ مثالوں سے واضح ہوا کہ لفظ شراب کا اطلاق یا تو عام مشروب پینے اور نبیذ کے لیے ہوا ہے ، خمر کے معنی میں مستعمل نہیں۔

تيسرى بات:
بریدہ صحابی کا اس موقع پر آنا:
بریدہ صحابی کا اس موقع پر آنا بھی اس مشروب کے شراب نہ ہونے کی ایک دلیل ہے کیونکہ صحابی کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ ایسے دسترخوان سے بھی دور رہتے ہیں جہاں شریعت کی مخالفت ہو اور شراب نوشی ہو ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

..ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يجلس على مائدة يدار عليها بالخمر   ( جامع الترمذي:2801 )

ترجمہ : اورجو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتاہو وہ ایسے دسترخوان پر نہ بیٹھے جہاں شراب کا دورچلتاہو۔

لہذا سیدنا معاویہ کے علاوہ اس موقع پر سیدنا بریدہ کا موجود ہونا بھی اس مشروب کی حقیقت کو واضح کردیتا ہے۔

چوتھی بات:
اہل علم کا فہم:
اس نکتے کے تحت ہم مذکورہ روایت کا صحیح مفہوم اہل علم کے کلام کی روشنی میں پیش کریں گے ۔

۱- ابن الساعاتی کی تبویب
"الفتح الرباني لترتيب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشيباني” میں ابن الساعاتی نے "مسند احمد” کو ابواب پر مرتب کیا اور اس حدیث پر باب قائم کیا : ’’باب ماجاء في اللبن وشربه وحلبه وغیر ذلك‘‘ یعنی دودھ اور اس کے پینے ، دوہنے وغیرہ کے بارے میں بیان۔
انہوں نے اس حدیث كا قطعاً وہ مفہوم نہیں نکالا جو بدطینت لوگ چاہتے ہیں۔

۲- علامہ ہیثمی کی تبویب :
امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس روایت پر ’’باب ماجاء فی اللبن‘‘ کا عنوان قائم کیا ۔ جس سے واضح ہوا کہ ان کے یہاں بھی اس روایت کا شراب سے کوئی تعلق نہیں۔

۳- مولانا اقبال کا ترجمہ :
مکتبہ رحمانیہ سے شائع "مسند احمد” کا ترجمہ جوکہ مولانا اقبال صاحب نے کیا ہے وہ اپنے ترجمے میں ایسا مفہوم بیان کرچکے ہیں کہ شراب مراد لینے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیں : ’’ عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور میرے والد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ، انہوں نے ہمیں بستر پر اٹھایا ، پھر کھانا پیش کیا جو ہم نے کھایا، پھر پینے کے لیے (نبیذ ) لائی گئی جسے پہلے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نوش فرمایا ، پھر میرے والد کو اس کا برتن پکڑا دیا تو وہ کہنے لگے کہ جب سے نبی علیہ السلام نے اس کی ممانعت فرمائی ہے، میں نے اسے نہیں پیا ، پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں قریش کا خوبصورت ترین نوجوان تھا اور سب سے زیادہ عمدہ دانتوں والا تھا، مجھے دودھ یا اچھی باتیں کرنے والے انسانوں کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی چیز میں لذت نہیں محسوس ہوتی تھی ۔ ‘‘ (مترجم مسند احمد : 10 / 661 ، مکتبہ رحمانیہ )

۴- ابو القاسم محمد محفوظ اعوان:
اس روایت کی شرح کرتے ہوئے ابو القاسم محمد محفوظ اعوان لکھتے ہیں :
’’اس سے ثابت ہوا کہ دودھ ایک لذت انگیز اور برکت آمیزغذا ہے ۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے جو چیز پی اور سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کو پیش کی ، یہ نبیذ تھی ، سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کا نہ پینا از راہ احتیاط تھا ، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس میں نشہ پیدا ہوچکا ہو ، وگرنہ نبیذ کوئی حرام چیز نہیں ہے ، ہاں جب اس میں نشہ پیدا ہوجاتا ہے تو اس کو پینا ممنوع قرار پاتا ہے۔ ‘‘ (الفتح الربانی : مترجم : 7/199، انصار السنۃ رقم الحدیث ؛ 7479 )
مسئلہ کی درست سمجھ کے لیے اتنی مثالیں کافی ہیں جن سے اس روایت کے بارے میں اہل علم کی رائے اور مؤقف واضح ہوجاتا ہے۔ جبكہ یہ واضح ہوگیا یہ لفظ قرآن و حدیث کی نصوص میں مختلف معانی میں مستعمل ہوا ہے۔
تنبیہ : بعض اہل علم نے اس سے مراد نبیذ لیا ہے (یعنی کھجور یا منقی کو پانی میں بھگویا جائے اور وہ پانی نشہ پیدا ہونے سے پہلے پیا جائے)، بعض نے دودھ سے وضاحت کی ہے لیکن بہرحال اہل علم اس پر متفق ہیں کہ وہ شراب (خمر) نہیں تھی۔

پانچویں بات:
مسند احمد کے الفاظ حديث کے صحیح مفہوم کو مزید سمجھنے کے لیے یہاں مصنف ابن ابی شیبہ کے الفاظ کو ملاحظہ فرمائیں:

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ: قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَأَجْلَسَ أَبِي عَلَى السَّرِيرِ وَأَتَى بِالطَّعَامِ فَأَطْعَمَنَا، وَأَتَى بِشَرَابٍ فَشَرِبَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: «مَا شَيْءٌ كُنْتُ أَسْتَلِذُّهُ وَأَنَا شَابٌّ فَآخُذُهُ الْيَوْمَ إِلَّا اللَّبَنَ، فَإِنِّي آخُذُهُ كَمَا كُنْتُ آخُذُهُ قَبْلَ الْيَوْمِ» (مصنف ابن أبي شیبة: 30560)

ترجمہ: زید بن حباب حسین بن واقد سے روایت کرتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا ، وہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے والد معاویہ کے پاس آئے انہوں نے ہمیں سریر پر بٹھایا اور کھانا لایا گیا انہوں نے ہمی کھانا کھلا اور پینے کی چیز لائے اور پی پھر معاویہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں جوانی میں دودھ سے زیادہ کسی چیز سے لطف اندوز نہیں ہوتا تھا میں نے اسے آج لیا ہے ، میں نے اسے آج لیا ہے جس طرح کہ میں اس سے پہلے اسے لیتا تھا۔ اور اچھی بات بھی مجھے پسند ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ کی مذکورہ روایت میں وہ زائد الفاظ: (ما شربتُه منذ حرّمه رسول الله صلى الله عليه وسلم) نہیں موجود۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان زائد الفاظ کا معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس کے قائل سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں ، تعجب کی بات یہ ہے کہ محمد على مرزا جہلمی نے شعیب الارناؤوط کا حدیث پر حکم تو ذکر کیا مگر اس قول کے بارے میں ان کی توضیح کو اہمیت نہیں دی۔
شعیب الارناؤوط نے بھی اس جملے کا قائل سیدنا معاویہ کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیدنا بریدہ کے چہرے پر کراہت محسوس کرتے ہوئے سیدنا معاویہ نے جواب دیا کہ میں نے شراب اس وقت سے نہیں پی جب سے رسول اللہ ﷺ نے اسے حرام قرار دیا۔

چھٹی بات:
عربی گرامر کی رو سے جواب:
اہل عرب کے فصیحانہ انداز کلام میں سے یہ بھی ہے کہ جہاں اسم ظاہر آنا چاہیے وہاں ضمیر لائی جائے، گویا کہ اسم ظاہر کو حذف کرکے بتلایا جائے کہ میں اس کا نام بھی لینا پسند نہیں کرتا ، اس کی صورت یہ بنے گی کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا بریدہ کے ہاتھ میں مشروب کا برتن تھماتے ہوئے کہا کہ ’’ما شربتُه‘‘ یعنی میں نے ’’اسے ‘‘ (یعنی الخمر ) کو جب سے نبی ﷺ نے حرام کیا ہے نہیں پیا یعنی کلام کا تقاضہ یہ تھا کہ یوں کہا جاتا ’’ما شربت الخمر منذ حرمه النبي ﷺ ‘‘ لیکن اسم ظاہر کی بجائے ضمیر لاکراس کا نام لینا بھی گوارہ نہ کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر شراب (خمر ) یہاں موجود نہیں تھی تو پھر یہاں شراب (خمر ) کا ذکر کہاں سے آگیا ؟ جوا ب اس کا یہ ہے اس قسم کے کلام کو عربی گرامر کی اصطلاح میں استطراد کہتے ہیں ، یعنی یہاں شراب کے تذکرے کا محل نہیں تھا ، کوئی ایسا سبب بن گیا کہ اس کا ذکر یہاں کرنا پڑا۔جیساکہ نبی کریم ﷺ سے سمندر کے پانی کی طہارت کے بارے میں سوال ہوا مگر جواب میں آپ ﷺ نے اس کے مردار کا بھی حکم بیان فرمادیا (جامع ترمذی : 69) ۔
چونکہ ایک شخص جب سمندر کا سفر کرے تو اس کے تعلق سے اسے مردار کا مسئلہ بھی درپیش ہوسکتا ہےاس لیے اس کا بھی تذکرہ کردیا ۔ یہی معاملہ یہاں ہوا کہ جب سیدنا معاویہ نے اپنے دسترخوان پر شراب (نبیذ وغیرہ ) دیکھی تو دور جاہلیت یاد آگیا جو اہل جاہلیت کے دسترخوان کا مستقل حصہ ہوتی تھی کہ مسلمانوں کے دسترخوانوں پر موجود مشروب دودھ وغیرہ تو ہوسکتا ہے مگر شراب نہیں ہوسکتی۔

خلاصہ کلام:
ان تفصیلی جوابات کی روشنی میں واضح ہوا کہ اس حديث سے خود ساختہ مفہوم لینا محض جہالت ، تعصب اور دنیوی مفاد کی کارستانی لگتی ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں مزید یہ کہ اہل علم نے اس کا صحیح مفہوم بیان کردیا ہے۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے