ذخیرہ احادیث میں متواتر احادیث موجود نہیں

وضاحتِ شبہ: بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ متواتر احاديث اپنا وجود نہیں رکھتیں ، زیادہ سے زیادہ ایک حدیث : مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ
ترجمہ: جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا تو اسے اپنے جہنم کےٹھکانے کےلیے تیار رہنا چاہیے۔ كو متواتر قرار ديا گيا ہے، یا صرف سترہ احادیث کے بارے میں یہ كہا گيا ہے كہ يہ متواتر ہیں ۔ اس ليےا گر ايک بات كو بيان كرنے والى ايک بڑى جماعت نا ہو تو عين ممكن ہے كہ وه جھوٹی يا غلط بات ہو ، كيونكہ لوگوں کی طبعیتیں ، مزاج مختلف ہوتے ہیں .
اسى طرح يہ اشكال بھی پيش كيا جاتا ہے كہ متواتر احاديث كا كوئی متفقہ ضابطہ نہیں ، کون سی تعداد ہے جسے تواتر کے لیے معتبر مانا جائے ؟ پھر ایک جماعت اگر ایسی خبر دے تو جو يقينى علم دے تو دوسری جماعت کی خبر اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے! ۔
نیز علماء کہتے ہیں کہ خبر متواتريقينى علم کا فائدہ دیتی ہے، اگر ايسا ہی ہے تو یہود و نصاری کی اس خبر کو تسلیم کرنا چاہیے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر لٹکا دیا گیا تھا! یہ مختلف شبہات متواتر احاديث كے بارے ميں پيش كيے جاتے ہیں.
جوابِ شبہ

 

پہلی بات:
یہ کہنا کہ متواتر احادیث موجود  ہی نہیں ،يا بالكل كم تعداد ميں ہیں  درست  نہیں  کیونکہ اہل علم نے باقاعده کتابیں لکھی ہیں جن میں متواتر احادیث کو جمع کیا گیا ہے ۔ مثلا ً :

  • الأزھار المتناثرۃ فی الأخبار المتواترۃ ،از علامہ سیوطی رحمہ اللہ ۔
  •  اللآلی المتناثرة فی الأحادیث المتواترۃ   از ابن طولون الحنفی رحمہ اللہ ۔
  •  لقط اللآلی المتناثرۃ فی الأحادیث المتواترۃ  از علامہ مرتضی الزبیدی رحمہ اللہ ۔

اس حوالے سے یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ متواتر کی دو قسمیں ہیں۔

۱۔ متواتر لفظی جس کا پورا متن (text) تواتر سے ثابت ہو جیساکہ   مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ 
۲۔ متواتر معنوی جو لفظا تو متواتر نہ ہو لیکن وہ مسئلہ اتنی احادیث سے ثابت ہوکہ وہ تعداد تواتر کو پہنچ جائے جیساکہ دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کا مسئلہ اتنی احادیث سے ثابت ہے کہ جو تواتر تک پہنچ جاتی ہیں،  اسی طرح  شفاعت کی احادیث ، حوض  كوثر کی احادیث ، نبی کریم ﷺ کی انگلیوں سے پانی جاری ہونے کی احادیث ، قیامت کے دن اللہ تعالی کے دیدار کی احادیث  یہ سب معنوی  طور پر متواتر ہیں۔ 

دوسری بات:
اس سلسلے  میں کتنی تعداد کو متعین کیا جائے کہ جن کے اتفاق سے یقین  حاصل ہوجائے اور ان کی خبرکو متواتر کہا جائے گا ،  اس بارے میں اہل علم کی آراء مختلف ہیں لیکن راجح بات یہ ہے کہ کسی تعداد کو متعین  نہ کیا جائے بلکہ یہ کہا جائے کہ راویوں کے احوال و کثرت کو دیکھتے ہوئے جس تعداد سے یقینى علم حاصل ہوجائے وہی معتبر ہے ۔ مثلاً   ایسا ہو سکتا ہے کہ راویوں کی صفات اور دیگر امور کا لحاظ رکھتے ہوئے دس  کے مجموعے کی روایت کو متواتر کہہ دیا جائے اور دوسری طرف بیان کرنے والوں کا مجموعہ بیس ہو لیکن راویوں کے احوال و دیگر امور کو دیکھنے کے بعد اس کثرت کو قابل التفات نہ سمجھا جائے۔ 

مزيد كے ليے ديكھیں:   مجموع فتاوى ابن تيميہ (18/48)، تدريب الراوى (2/177)

تیسری بات:
یہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ ايک بڑى تعداد کسی شے کی خبر دينے پر  جمع ہوجاتی ہے باوجود اس کے کہ ان کی طبيعتیں مختلف ہوتی ہیں۔ اس لیے محض لوگوں کی طبیعت کے مختلف ہونے کو  غلطى  کی دلیل بنانا صحیح نہیں۔  کیا ہم نہیں دیکھتے کہ  روز مرہ کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات بڑی تیزی سے دنیا بھر میں عام ہوجاتے ہیں! کسی علاقے میں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور اس علاقے کا کوئی فرد اس کی اطلاع دیتا ہے اور پھر یہ اطلاع   خبر و نشر کے ذرائع یا میڈیا کے  ذریعے دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے اور  سب اس  خبر کو تسلیم کرلیتے ہیں ۔ باوجود اس کے کہ یہ لوگ مختلف ممالک میں موجود ہوتے ہیں ، ان کی طبیعتیں، مزاج بھی مختلف ہوتے ہیں ،  اس دور کے ان مشاہدات سے خبر متواتر کو سمجھنا تو اور زیادہ آسان ہوجاتا ہے چہ جائیکہ اسے قابل اعتراض سمجھا جائے۔

اور يہ بھی سمجھنا ضرورى ہے كہ احاديث كے راوى اپنى  ذاتى رائے اور تجزيہ نھيں بلكہ آپ صلى الله عليہ وسلم كى مبارک احاديث بيان كرتے تھے جن كو جس طرح انہوں نے  سنا ويسے ہی آگے منتقل كرديا، اسى ليے  راويان حديث كے احاديث بيان كرنے كے معاملہ كا طبيعت ومزاج سے كوئی تعلق نہیں.

چوتھی بات:
یہود و نصاری کا سیدنا عیسیٰ کے بارے میں قتل یا سولی کے عقیدہ کو متواتر نہیں کہا جاسکتا کیونکہ :

۱۔ یہودی قدیم مراجع میں تو مسیح نامی شخص کا تذکرہ تک موجود نہیں چہ جائیکہ تواتر کی بات کی جائے۔
۲۔ سولی کے حولے سے مسیحیوں کا عقیدہ بھی خود مسیحی فرقوں میں متنازع رہا ہے اور اب تک ہے اور ہر دور میں اس کی مخالفت خود ان کے اپنے فرقوں میں کی جاتی  رہی ہے اور بہت سے فرقے اس بات پر بھی متفق ہیں کہ یہ پولس کی ایجادات میں سے ہے۔
۳۔ انجیل برنابا جسے خاصی حد تک تحریف سے پاک سمجھا جاتا ہے وہ اس عقیدے کا انکار کرتی ہے ۔
۴۔  انجیل یوحنا کے باب  (20) میں یسوع مسیح کے ایک عورت  پرظاہر ہونے کے واقعے  سے معلوم ہوتا ہے کہ یسوع کا صلیب  پر چڑھ جانا ان پر مشتبہ  ہوگیا تھا۔ اوریہی بات قرآن کریم نے ان کے بارے میں کہی:

وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ 

ترجمہ : حالانکہ نہ انھوں نے اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی پر چڑھایا اور لیکن ان کے لیے اس (مسیح) کا شبیہ بنا دیا گیا.

۵۔ یہودی و مسیحی نظریات کے دلائل کی استنادی حیثیت اور تناقضات کی تفصیل كتاب : ” اظہار الحق”  از رحمت اللہ کیرانوی ، میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے ،  جس  سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان تناقضات  کے باعث  یہ  جھوٹ پر مبنی ہے چہ جائیکہ کہ اس کے تواتر کی بات کی جائے ۔

Was this article helpful?

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے